اللہ تعالی قرآنِ کریم میں فرماتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ وَلَوۡ یَرَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اِذۡ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ ۙ اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعَذَابِ(البقرہ:166)
ترجمہ : اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ کے مقابل پر شریک بنا لیتے ہیں۔ وہ اُن سے اللہ سے محبت کرنے کی طرح محبت کرتے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ کی محبت میں (ہر محبت سے) زیادہ شدید ہیں۔ اور کاش! وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا سمجھ سکیں جب وہ عذاب دیکھیں گے کہ تمام تر قوّت (ہمیشہ سے) اللہ ہی کی ہے اور یہ کہ اللہ عذاب میں بہت سخت ہے۔
محمدؐ عربی بادشاہِ ہر دو سرا
کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی
اُسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی
آج میری تقریر کا عنوان ہے : عَشِقَ مُحمدٌ رَبَّہْ
سامعین / سامعات ! اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عاشقِ الٰہی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان درج فرمایا ہے قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ (آل۔عمران:32) کہ اے محمد! کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کے دعویدار ہو تو میری کامل پیروی کرو تب اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا ۔ گویا اللہ کی محبت کی تلاش کے لیے دنیا میں اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت کرنے والے کی اُن اداؤں کو اپنانا ہو گا جو وہ اپنے خالق اور اپنے ربّ سے محبت کرتے ہوئے اپناتا ہے ۔ تب تمہاری اللہ سے محبت کا دعویٰ سچا ثابت ہو گا ۔
اب ہمیں اُن اداؤں کا جائزہ لینا ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ربّ سے پیار ، عشق اور محبت کرنے کے لیے اختیار کیا کرتے تھے ۔ ہم جب آپؐ کی اللہ سے محبت اور عشق کی اداؤں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے وہ دُعائیں نظر آتی ہیں جو آپؐ محبت الٰہی کے حصول کے لیے کیا کرتے تھے ۔ ترمذی کتاب الدعوات میں حضرت عبد اللہ ؓ بن یزید الانصاری سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دُعا مروی ہے ۔
اَللّٰھُمَّ ارْزُقنِیْ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یَّنفَعُنِییْ حُبُّہٗ عِنْدَکَ اَللّٰھُمَّ مَا رَزَقْتَنِیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ قُوَّۃ ً لِّی فِیْمَا تُحِبُّ،وَمَازَوَیْتَ عَنِّیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ فَرَاغًا لِّیْ فِیْمَا تُحِبُّ
(ترمذی کتاب الدعوات)
ترجمہ:-اے اللہ!مجھے اپنی محبت عطا کر اور اس کی محبت بھی جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔ اے اللہ! میری محبوب چیزیں جو تومجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیزوں کی خاطر میرے لئے قوت کا ذریعہ بنا دے اور میری جوپیاری چیزیں تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا فرمادے۔
سامعین /سامعات ! اِسی پر بس نہیں بلکہ آپؐ اُن دعاؤں کو بھی دُہرایا کرتے تھے جو آپؐ کے پیشرو انبیاء نے محبت الٰہی کے لیے کیں ۔ جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی اِس دُعا کو آپؐ نے اپنے روز مرہ کے معمولات کا حصہ بنا رکھا تھا ۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِی حُبَّکَ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَمَالِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِد (ترمذی کتاب الدعوات )
ترجمہ: -اے اللہ! مَیں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں۔اور اُس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے اورمیَں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اےاللہ! اپنی محبت میرے دل میں اتنی ڈال دے جو میری اپنی ذات،میرے مال،میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو۔
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرُ
مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ
اپنی تقریر میں اِس مضمون کو بڑھانے سے قبل یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عَشِقَ مُحمدٌ رَبَّہْکے الفاظ مکہ کے دشمنانِ اسلام کے ہیں جس کے معنی ہیں کہ محمد کو اپنے ربّ سے عشق ہے یا یوں کہہ لیں کہ محمد اپنے ربّ کا عاشق ہو گیا ہے ۔اپنے اللہ کا دیوانہ ہے ۔ یہ اعتراف صرف ایک دو دشمنوں کے نہ تھے باقی تمام سردارانِ مکہ بھی اِس بات کے معترف تھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر بات کرتا ہے تو اللہ سے اِس کی بات شروع ہوتی ہے اور اللہ پر ہی ختم ہوتی ہے ۔ یہی کیفیت اس کی عبادات کی ہے ۔
آپؐ کی نمازوں اور نوافل کو دیکھیں تو اِ س دنیا سے نکل کر آپ ؐ ایک اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں اللہ ہی اللہ تھا ۔ آپؐ نے رات کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا جس میں تیسرا اور آخری حصہ آپؐ نے اللہ کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔ احادیث میں ذکر ہے کہ آپؐ رکعات کو بہت لمبا کرتے جن میں سورۃ البقرہ ، سورۃ آل عمران جیسی لمبی سورتوں کی تلاوت فرماتے ۔ آپؐ کے اتنا لمبا کھڑا ہونے سے آپؐ کے پاؤں سوج جاتے ۔ آپؐ کے رکوع و سجود بھی بہت طویل ہوتے ۔ ایسے لگتا جیسے ہنڈیا سے پانی اُبلنے کی آواز آپؐ کے سینے سے آرہی ہو اور آپؐ سے جب کہا گیا کہ خدا نے آپؐ کو بخش دیا ہوا ہے تو پھر اتنی لمبی عبادات کیوں بجا لاتے ہیں ۔ تو آپؐ نے فرمایا اَفَلا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا( مسلم ، شمائل النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 108حدیث 251) کہ اگر خدا کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ اُس نے میری تمام کمزوریوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور میرے استغفار کو قبول کیا ہے تو کیا مَیں اِن احسانات کا شکر ادا کرتے ہوئے لمبی نمازیں۔نہ۔پڑھوں۔
سامعین /سامعات ! حضور ؐ کی عبادات کی بات چلی ہے تو ایک روایت عَشِقَ مُحمدٌ رَبَّہْکی تائید میں یہ صادق آئے گی کہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضورؐ ہم سے باتیں کر رہے ہوتے مگر جوں ہی اذان کی آواز سنتے تو آپؐ نماز کے لیے فوراً جگہ چھوڑ دیتے اور ہمیں پہچانتے تک نہ تھے ۔ آپؐ بیماری ، صحت ، غم اور خوشی میں نماز مسجد میں جا کر ادا کرتے ۔ اپنی آخری بیماری میں دو صحابہ کے کاندھوں کے سہارے نماز با جماعت کے لیے مسجد نبوی تشریف لائے ۔ بخاری کتاب المغازی کی روایت کے مطابق آپؐ ارد گرد گھر کے افراد وخواتین سے بار بار پوچھتے کہ کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے پھر غشی طاری ہو جاتی ذرا افاقہ ہوتا ہوش آتی تو پھر نماز کا پوچھتے ۔ آپؐ کا زیادہ تر وقت مسجد میں گزرتا ۔ حتٰی کہ جنگ اُحد میں جبکہ آپؐ زخمی تھے اور 70صحابہ کی شہادت کا غم آپؐ کو نڈھال کیے ہوئے تھا آپؐ نے مسجد میں آکر نماز با جماعت ادا فرمائی ۔
ذکرِ الٰہی کو دیکھیں تو آپؐ کا انگ انگ اللہ کی تسبیح و تحمید اور ذکرِ الٰہی میں ڈھوبا ہوا تھا اور آپؐ اپنے دوستوں کو بھی اس کی تحریک کرتے ۔ ایک روز زوجہ مطہرہ حضرت جویریہؓ صبح کی نماز سے فارغ ہو کرمصلّے پر بیٹھی ذکرِ الٰہی کر رہی تھیں ۔ آنحضورؐ، آپؓ کو ذکرِ الٰہی میں مصروف دیکھ کر باہر تشریف لے گئے اور اُس وقت واپس گھر تشریف لائے جب سورج کافی بلند ہو چکا تھا اور حضرت جویریہؓ ابھی بھی مصّلے پر بیٹھی ذکرِ الٰہی میں مصروف تھیں ۔ آپؐ نے فرمایا ۔ اے جویریہؓ ! مَیں جب تمہارے پاس سے گیا تھا مَیں نے چار کلمات تین بار پڑھے جو اجر و ثواب کے حوالہ سے تمہارے اس ذکر سے کہیں زیادہ وزنی ہیں ۔ پھر آپؐ نے یہ پڑھا ۔
سُبْحَانَ اللّٰهِ وَ بِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ، وَ رِضَا نَفْسِهِ، وَ زِنَةَ عَرْشِهِ، وَ مِدَادَ کَلِمَاتِهِ( مسلم ، ابن ماجہ )
ترجمہ: اللہ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کی مخلوق ہے ۔ اللہ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کی ذات یہ بات پسند کرتی ہے ۔ اللہ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کے عرش کا وزن ہے ۔اللہ پاک ہے اسقدر جس قدر اُس کے کلمات کی سیاہی ہے ۔
پھر دو کلمات کے متعلق فرمایا کہ یہ دو کلمے زبان پر بہت ہلکے ہیں اور وزن میں بہت بھاری ہیں وہ یہ ہیں ۔
سُبْحَانَ اللّٰہ وَ بِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللّٰہ الْعَظِيمِ (بخاری کتاب التوحید)
ترجمہ: اللہ اپک ہے اپنی حمد کے ساتھ اور اللہ پاک ہے بہت عظمت والا ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ دو کلمات الہام ہوئے درود کے ایک حصے کے ساتھ جو کہ یہ ہیں ۔
حضورؑ فرماتے ہیں ۔
’’ جس طرح خدا تعالیٰ نے مصائب سے نجات پانے کے لیے بعض اپنے نبیوں کو دعائیں سکھلائی تھیں مجھے بھی خدا نے الہام کر کے ایک دعا سکھلائی ۔
سُبْحَانَ اللّٰہ وَ بِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللّٰہ الْعَظِيمِ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ
عَشِقَ مُحمدٌ رَبَّہْکو ذکرِ الٰہی کے حوالے سے مزید یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ آپ ؐ یہ دُعا ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے اور صحابہ ؓ کو بھی تلقین کرتے ۔
حضرت معاذؓ بن جبل کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ہر نماز میں اور ایک روایت کے مطابق ہر نماز کے بعد یہ دُعا پڑھنے کی تلقین فرمائی:
اَللّٰھُمَّ اَعِنِّی عَلی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ (ابو داؤد کتاب الصلٰوۃ)
سرور خاصانِ حق ، شاہِ گروہ عاشقان
آنکہ روحش کرد طے ہر منزلِ و صلِ نگار
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5صفحہ 23)
ترجمہ:وہ خاصانِ حق کا سردار اور عاشقانِ الٰہی کی جماعت کا بادشاہ ہے جس کی روح نے معشوق کے وصل کے ہر درجے کو طے کر لیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذات کے عاشق زار اور دیوانہ ہوئے اور پھر وہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌعَلیٰ رَ بِہٖ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب پر عاشق ہو گیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 524، ایڈیشن1988ء)
سامعین /سامعات ! اللہ تعالیٰ سے محبت اور عشق کے انداز ہی آپؐ کے نرالے تھے ۔ اللہ تعالیٰ کے مقابل کسی کا نام برداشت نہ کرتے تھے ۔ حتٰی کہ ایک دفعہ کسی نے آپؐ کو مخاطب ہوکر کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ کام ایسے ہی ہوا جیسا کہ اللہ نے اور آپؐ نے چاہا ۔ آنحضورؐ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا ۔ اِسی حدیث کا حوالہ دیے کر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احبابِ جماعت کو خطوط لکھنے کے حوالے سے توجہ دلائی تھی کہ مجھے یہ نہ لکھا کریں کہ اللہ کے فضل اور آپ کے دعاؤں سے ۔ مَیں تو ادنیٰ آدمی ہوں مَیں تو اپنے اللہ سے دُعا کر سکتا ہوں فرمائش کر سکتا ہوں ۔
اِسی پر بس نہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کُنی کی حالت میں اپنی بیگمات کو کہا کہ دیکھو! یہود و نصاریٰ پر اللہ لعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا ۔ گویا اپنی عمر کے آخری حصہ میں جبکہ انسان اپنی جائداد یا ورثہ کے حوالہ سے پسماندگان کو نصائح کرتا ہے آپؐ اپنے مادی اور روحانی پسماندگان کو شرک سے دُور رہنے کی نصیحت فرما رہے ہیں اور عملاً یہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھو! میرے بعد میری قبر پر سجدے نہ کرنا ۔ اصل سجدہ کی جگہ اللہ تعالیٰ ہے اور وفات کے وقت بھی محبت الٰہی کے الفاظ ہی آپؐ کی زبانِ مبارک سے جاری تھے اور کہہ رہے تھے اللھم رفیق الأ علی ۔ اللھم رفیق الأ علی
سامعین /سامعات ! اپنے اللہ کی خاطر غیرت بھی محبت الٰہی کا حصہ ہے ۔ جنگِ اُحد میں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پھیل گئی اور دشمنوں نے تکبر میں آکر اعلان کروا دئیے اور مسلمانوں سے سے پوچھنے لگے کہ ۔ کیا تم میں محمد ہے ؟ کیا تم میں ابو بکر ہے ؟ کیا تم میں عمر ہے ؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مصلحتاً خاموش رہنے کا ارشاد فرمایا ۔ مسلمانوں کی طرف سے خاموشی دیکھ کر ابو سُفیان نے اپنے بُت کی بلندی کا اعلان اِن الفاظ میں کر دیا اُعْلُ ھُبَلْ! اُعْلُ ھُبَلْیہ فقرہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں کو چھوا ہی تھا کہ غیرتِ توحید نے جوش مارا اور صحابہؓ سے جوش کے ساتھ مخاطب ہو کر فرمایا کہ جواب کیوں نہیں دیتے تمہارے خدا کے مقابل پر ھبل بُت کی سر بلندی کا اعلان ہو رہا ہے فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلیٰ و اَجَلُّ اللہ اللہ۔سب سے بڑا ، بلند اور اعلیٰ شان والا ہے ۔ ابو سفیان نے پھر دوسرے بُت کا نام لیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو! اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں۔
(بخاری کتاب المغازی)
معزز بھائیوو بہنو ! اللہ تعالیٰ سے محبت اور اُس کی خاطر عزت رکھنے کے کون کون سے واقعہ کا ذکر کروں مگر وقت کی حد اِس میں آڑے آرہی ہے ۔ صرف ایک واقعہ بیان کر کے اپنی گفتگو ختم کرتا/کرتی ہوں ۔
فتح مکّہ کے روز جب انکساری کی وجہ سے آپؐ کا سر اونٹ کے کجاوے کے ساتھ لگ کر جھکا ہوا تھا لیکن خانہ کعبہ کے360بُتوں کو توڑنے کے لیے آپؐ کا جوش دیدنی تھا ۔ پورے جذبہ سے اللہ اکبر کہتے ہوئے آپؐ نے ہر بُت کو زور سے توڑا ( بخاری کتاب المغازی )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ربّ سے عشق کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ذات کے عاشق زار اور دیوانہ ہوئے اور پھر وہ پایا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہیں ملا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ عام لوگ بھی کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌعَلیٰ رَ بِہٖ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب پر عاشق ہو گیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 524، ایڈیشن1988ء)
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
“مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر)۔ یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی ۔اِس لئے خدانے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعوی کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافرِ نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منوّر رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں‘‘۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 118-119)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خالص توحید کے قیام کے لئے دنیا میں مبعوث فرمایا تھا۔ اور بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے ایسے انتظامات فرما دئیے کہ آپؐ کے دل کو صاف، پاک اور مصفّٰی بنا دیا۔ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اندر اپنی محبت اور شرک سے نفرت کا بیج بو دیا۔ بلکہ پیدائش سے پہلے ہی آپؐ کی والدہ کو اُس نور کی خبر دے دی جس نے تمام دنیا میں پھیلنا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ رؤیا جو حضرت آمنہ نے دیکھا تھا، کس طرح سچ ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی مکمل شریعت آپؐ پراپنے وقت پر نازل ہوئی۔ اور وہ نور دنیامیں ہر طرف پھیلا۔ خدائے واحد کی محبت کا ایک جوش تھا جس نے آپؐ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین و سکون چھین لیا تھا۔ اگر کوئی تڑپ تھی تو صرف ایک کہ کس طرح دنیا ایک خدا کی عبادت کرنے لگ جائے، اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے لگ جائے۔ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے آپؐ کو تکلیفیں بھی برداشت کرنا پڑیں، سختیاں بھی جھیلنی پڑیں۔ لیکن یہ سختیاں، یہ تکلیفیں آپؐ کو ایک خدا کی عبادت اور خدائے واحد کا پیغام پہنچانے سے نہ روک سکیں ۔‘‘
(خطبہ جمعہ 4فروری2005ء)
عمیر بن وہب نے مکہ کے ایک سردار صفوان بن امیہ کے ساتھ مل کر مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا اور اس وقت ان دونوں کے سوا کوئی ان کے پاس موجود نہ تھا۔ اس قتل کے ارادہ سے جب عمیر مدینہ پہنچے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش ہوئے تو حضورؐ نے ان سے آنے کا مقصد پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ بدر میں میرا بیٹا قید ہوا ہے اس کو چھڑوانے آیا ہوں۔ لیکن ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا جس کی محبت میں آپ کا ہر لمحہ گداز تھا وہ آپؐ کو حقیقت سے آگاہ کرچکا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
” عمیر نے جونہی مسجد نبوی کے دروازے پر اپنی اونٹنی بٹھائی تو حضرت عمر کی ان پر نظر پڑی کہ عمیر تلوار ہاتھ میں لئے اتر رہا ہے۔ حضرت عمر نے ان کو دیکھتے ہی کہا کہ خدا کا دشمن عمیر بن وہب ضرور کسی برے ارادے سے یہاں آیا ہے۔ پھر حضرت عمر فورا ہی وہاں سے اٹھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے ہجرہ مبارک میں گئے اور عرض کیا اے پیغمبر خدا خدا کا یہ دشمن عمیر بن وہب ننگی تلوار لئے آیا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ اسے میرے پاس اندر لے آؤ۔ ……آپ نے فرمایا عمیر قریب آؤ چنانچہ عمیر قریب آیا ……. عمیر نے کہا میں اپنے اس قیدی یعنی اپنے بیٹے کے سلسلے میں بات کرنے آیا ہوں جو آپ لوگوں کے قبضہ میں ہے …. آپ نے فرمایا اس کی ننگی تلوار دیکھ کے پھر اس تلوار کا کیا مطلب ہے۔ عمیر نے کہا خدا اس تلوار کا ناس کرے کیا آپ نے ہمیں کسی قابل چھوڑا ہے۔ اس تلوار نے پہلے کونسا ہمارا ساتھ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا مجھے سچ سچ بتاؤ تم کس مقصد سے آئے ہو۔ آپ کو یقین نہیں آیا اس کی بات پہ۔ عمیر نے کہا میں واقعی اس کے سوا اور کسی ارادے سے نہیں آیا کہ اپنے قیدی کے متعلق آپ سے بات کروں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ ایک دن تم اور صفوان بن امیہ حطیم کے پاس بیٹھے تھے اور قریش کے ان مقتولوں کی باتیں کر رہے تھے جن کو جنگ بدر میں قتل کر کے گڑھے میں ڈالا گیا ہے اس وقت تم نے صفوان سے کہا تھا کہ اگر مجھ پر ایک قرض نہ ہوتا اور اپنے بیوی بچوں کی فکر نہ ہوتی تو میں جا کر محمد کا قتل کر دیتا۔ صفوان نے میرے قتل کی شرط پر تمہارا قرض اتارنے اور بیوی بچوں کی ذمہ داری لے لی تھی۔ عمیر فوراً بول اٹھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ نے بتا دی تھیں اس طرح ہوا۔ یہ سنا تو اس روایت میں یہ لکھا ہے کہ فوراً بول اٹھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ یارسول اللہ آپ کے پاس آسمان سے جو خبریں آیا کرتی ہیں اور آپ پر جو وحی نازل ہوتی ہے ہم اس کو جھٹلایا کرتے تھے اور جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے تو اس وقت حطیم کے پاس میرے اور صفوان کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور نہ ہی کسی اور کو ہماری اس گفتگو کی خبر ہے۔ اس لئے خدا کی قسم اللہ تعالیٰ کے سوا آپ کو اور کوئی اس کی خبر نہیں دے سکتا پس حمد اللہ ہی کے لئے ہے جس نے اسلام کی طرف ہماری رہنمائی اور ہدایت فرمائی اور مجھے اس راہ پر چلنے کی توفیق بخشی۔ اس کے بعد عمیر نے کلمہ شہادت پڑھا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا اپنے بھائی کو دین کی تعلیم دو اور اس کو قرآن پاک پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو رہا کر دو۔صحابہ نے فوراً ہی حکم کی تعمیل کی۔ “
(خطبہ جمعہ 29 ستمبر 2023ء)
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ پس یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقام جس کو قائم کرنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے آپؐ پیدا ہوئے تھے۔ ایک اعلیٰ انسان اور عبد رحمن کا مقام جو کسی کو ملا وہ سب سے اعلیٰ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا۔ اور بندے کی پہچان اپنی ذات کی پہچان اور خداتعالیٰ کی ذات کی پہچان کرانے کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے۔ توحید کے قیام کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے۔ اور ساری زندگی اسی میں آپؐ نے گزاری۔ اور یہی آپ کی خواہش تھی کہ دنیا کا ہر فرد ہر شخص اس توحید پر قائم ہو جائے۔ اور اس زمانے میں بھی آ پؐ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی پہچان اس تعلیم کی رو سے ہمیں کروائی۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خدائے واحد کی عبادت اور اس کے نام کی غیرت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تبھی ہم حقیقت میں لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا کلمہ پڑھنے والے کہلا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 4فروری2005 ء)
بلغَ العُلا بِكَمَالِهٖ
كشفَ الدُجٰى بِجَمَالِهٖ
حَسُنَتْ جَميعُ خِصالِه ٖ
صلُّوا عَليهِ و آلِهٖ