حضرت حسینؑ۔جنت کا سردار
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”اے اللہ! میں ان دونوں (حسنؓ اور حسینؓ) کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی اے اللہ! انہیں محبوب رکھ اور جو انہیں محبوب رکھے تو انہیں بھی محبوب رکھ۔“
(اسدالغابہ جلد2 زیر لفظ حسین)
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”اے اللہ! میں ان دونوں (حسنؓ اور حسینؓ) کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی اے اللہ! انہیں محبوب رکھ اور جو انہیں محبوب رکھے تو انہیں بھی محبوب رکھ۔“
(اسدالغابہ جلد2 زیر لفظ حسین)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ خطبہ جمعہ فرمودہ 14اپریل 2000ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ضمیمہ نزول المسیح کا حوالہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پرزبان دراز کرتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسینؓ جیسے یا حضرت عیسیٰؑ جیسے راستباز پربد زبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور وعید مَنْ عَادَا وَلِیًّالِی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ ظاہری طورپر تو بہت بدبخت ہیں جو حضرت امام حسینؓ کے خلاف بدزبانی کرتے ہیں اورحضرت عیسیٰ پر بھی سخت بدزبانی کرتے ہیں تووہ ایک ہی رات میں مرکیوں نہیں جاتے۔ اصل میں یہ روحانی مضمون ہے کہ وہ مرے ہوئے ہی ہوتے ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں یعنی روحانی لحاظ سے وہ زندہ رہ ہی نہیں سکتے ایسی گستاخی کے بعد۔ اگروہ پہلے سے مردہ نہ ہوں توایسی گستاخی نہیں کریں گے۔ اگر زندہ بھی سمجھتے تھے اپنے آپ کو تو اس گستاخی کے بعد ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتے یعنی روحانی معنوں میں۔ ’’اور وعید مَنْ عَادَا وَلِیًّالِی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے۔ پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا ہے اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ149)
(خطبہ جمعہ فرمودہ 14اپریل 2000ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”محرم میں محبت کی اور باہم رشتوں کو باندھنے کی تعلیم دینی ضروری ہے اور جیسا کہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے حقیقت یہ ہے کہ اول زور روحانی تعلق پر دینا ضروری ہے اور پھر جسمانی طور پر اگر تعلق ہے تو اس تعلق میں اضافہ ہو گا کمی نہیں ہو سکتی۔ یعنی جسمانی تعلق سونے پر سہاگے کا کام دے گا لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے روحانی تعلق قائم ہو اور روحانی تعلق پر زور دیا جائے پھر زائد کے طور پر جب جسمانی رشتہ دکھائی دے گا تو لازمًا سب کو محبت ہو گی۔“
(خطبہ جمعہ فرمودہ 17جون 1993ء)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ سے اپنی ایک مناسبت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ ایک لطیف مناسبت ہے اور اس مناسبت کی حقیقت کو مشرق و مغرب کے ربّ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور مَیں حضرت علیؓ اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جواُن سے عداوت رکھے اس سے مَیں عداوت رکھتا ہوں‘‘
(سرالخلافۃ اُردو ترجمہ صفحہ112)
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ایک بہادر ، ذہین اور سادہ مزاج خاتون تھیں حالانکہ آپؓ کی پرورش ایک امیر گھرانے میں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بالکل سادگی میں باقی ازواج مطہرات کی طرح آپؓ نے بھی اپنی زندگی گزاری ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کا بہت جذبہ تھا ۔آپؓ اپنا اکثر وقت عبادت میں گزارتی تھیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے حجرے کے ایک کونے کو مخصوص کر لیا تھا ۔
Continue Readingحضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت زینب رضی الله عنہا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات سے فخریہ کہا کرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپرکیا۔
(صحیح بخاری کتاب: التوحيد، باب: وکان عرشه علي الماء)
مصنف نے کتاب ‘مشاہدات’ کی نویں جلد پیش کی، جس میں جماعت کے مقاصد کے مطابق مختلف عنوانات پر تقاریر شامل ہیں۔ یہ جلد خاص طور پر مجلس انصاراللہ اور خدام بھائیوں کی تعلیم وتربیت کے لئے تصنیف کی گئی ہے۔ کتاب میں شامل تقاریر کو مختلف عناوین سے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
Continue Readingایک مراکشی دوست مصطفی صاحب نے لمبا عرصہ احمدیت کے بارے میں تحقیق کر کے بیعت کی ۔ کہتے ہیں میں نے بچپن سے ہی بہت سے علماء کی صحبت میں وقت گزارا ہے لیکن خلیفہ وقت کے خطبات نہ صرف قرآن کریم کی صحیح تفسیر ہیں بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ خطبات سننے کے بعد مجھے نمازوں کا مزہ آنے لگا ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے سچی خوابیں بھی دکھائی ہیں۔ احمدیت نے میری زندگی بدل دی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے موصوف آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔
Continue Readingعلمی حیثیت میں اگرچہ تمام ازواج بلند مرتبہ تھیں، تاہم عائشہ اور ام سلمہ کا ان میں کوئی جواب نہیں تھا، چنانچہ محمود بن لبید کہتے ہیں،”آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج احادیث کا مخزن تھیں، تاہم عائشہ اور ام سلمہ کا ان میں کوئی حریف و مقابل نہ تھا۔“
( طبقات ابن سعد جلد 6 صفحہ 317)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ حضرت زینب کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مزاج آشنائی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ ایک دفعہ حضرت زینبؓ اپنے کپڑے گیری میں رنگنے لگیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر سے تشریف لائے اور کپڑے رنگتے ہوئے دیکھ کر واپس تشریف لے گئے ۔ حضرت زینبؓ تاڑ گئیں کہ آپ کس بات کی وجہ سے واپس تشریف لے گئے ہیں ۔ ہادیوں کے گھر میں ہر وقت الٰہی رنگن چڑھی رہتی ہے ۔ جس کا ذکر صِبۡغَۃَ اللّٰہِ ۚ وَمَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبۡغَۃً (البقرہ:139)میں ہے ۔ یہ رنگینیاں اس کے مقابل میں کیا چیز ہے ۔ پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بناوٹ ، زیور اور لباس سے خوش نہیں ہوتا بلکہ نیک بیبیوں کی بناوٹ اور زیور ان کے نیک عمل ہیں۔ ‘‘
( خطبات نورصفحہ 226)