آخری پیغامات
مؤمن کی تعریف کرتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 اَلۡمُوۡمِنُ مَنۡ  اٰمَنَہُ النَّاسُ
کہ مومن وہ ہے جس سے دنیا کی مخلوق امن میں رہے ۔
مؤمن کی تعریف کرتے ہوئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 اَلۡمُوۡمِنُ مَنۡ  اٰمَنَہُ النَّاسُ
کہ مومن وہ ہے جس سے دنیا کی مخلوق امن میں رہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”قرآن شریف کا یہ مقصد تھا کہ حیوانوں سے انسان بناوے اور انسان سے بااخلاق انسان بناوے اور با اخلاق انسان سے باخدا انسان بناوے “
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 329 ) 
حضرت خلیفۃ المسیح  الخامس ایدہ اللہ   بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
 ”یہ مومن کا کام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو جب پڑھے، آپ کے اُسوۂ حسنہ کو جب دیکھے تو جہاں اس پر عمل کرنے اور اسے اپنانے کی کوشش کرے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے کہ اس محسنِ اعظم نے ہم پر کتنا عظیم احسان کیا ہے کہ زندگی کے ہر پہلو کو خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق عمل کرکے دکھا کر اور ہمیں اس کے مطابق عمل کرنے کا کہہ کر خدا تعالیٰ سے ملنے کے راستوں کی طرف ہماری رہنمائی کر دی۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے معیار حاصل کرنے کے راستے دکھا دئیے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری کا احساس مومنین میں پیدا کیا جس سے ایک مومن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔ یہ سب باتیں تقاضا کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہوئے ہم دنیا کو بھی اس تعلیم اور آپ کے اُسوہ سے آگاہ کریں۔ آپ کے حسن و احسان سے دنیا کو آگاہ کریں۔ جب بھی غیروں کے سامنے آپ کی سیرت کے پہلو آئے تو وہ لوگ جو ذرا بھی دل میں انصاف کی رمق رکھتے تھے، وہ باوجود اختلافات کے آپ کی سیرت کے حسین پہلوؤں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔“
(خطبہ جمعہ 5؍ اکتوبر 2012ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”مسلمانوں کے سب سے بہتر ہونے کی یہ وجہ ہے کہ انہیں اپنے فائدہ کی بجائے سب دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ کاش! مسلمان اس حکمت کو سمجھیں اور اس طرح ذلیل نہ ہوں۔ “
 ( تفسیر صغیر سورۃ آل عمران ۔ حاشیہ آیت 111)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:
مَیں بچپن میں اکثر دیکھتا کہ حضورؑ تہجد میں لمبی لمبی دعائیں کرتے اور اپنے بچوں کے لیے بھی بہت دعا کیا کرتے۔ کئی دفعہ مَیں نے سنا کہ حضور دعا میں روتے ہوئے یہ الفاظ دہرا رہے ہیں کہ
”اے اللہ! میری اولاد کو اپنا صالح بندہ بنا دے۔“
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
” اسلام ہر معاملہ میں کامل عدل اور مساوات کا درس دیتا ہے،چنانچہ سورۃ مائدہ آیت نمبر 3 میں ہمیں ایک بہت ہی اہم اور رہنما اصول ملتا ہے کہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں سے بھی عدل و انصاف کا سلوک کیا جائے جو اپنی دشمنی اور نفرت میں تمام حدود پار کر چکے ہیں۔
ایک سوال طبعاً پیدا ہوتا ہے کہ اسلام جس عدل کا تقاضا کرتا ہے اس کا معیار کیا ہے اس بارے سورت نساء آیت نمبر 136 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ تمہیں اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا اپنے والدین یا اپنے عزیز ترین رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تب بھی تمہیں انصاف اور سچائی کو قائم رکھنے کے لیے ایسا کرنا چاہیے۔“
(خطاب حضور انور بعنوان ”عالمی بحران اور امن کی راہ“)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں اول یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نہ اُس کی ذات میں نہ صفات میں نہ عبادات میں اور دوسرے نوع.انسان سے ہمدردی کرو اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو۔ آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو۔ مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی۔ مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو۔ جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے ۔ اللہ تعالیٰ اُسی قدر تم سے خوش ہوگا۔ اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو۔ قیامت نزدیک ہے تمہیں ان تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہئے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو ان سے بہت دکھ اٹھانا پڑے گا کیونکہ جو لوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہو جاتے ہیں ان کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پھوٹ نکلتا ہے۔ پس دیندار کو چاہئے کہ اپنی زبان کو سنبھال کر رکھے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ130)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
”مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہرا وے ۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور مَیں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تاوہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر مَیں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر مَیں اس کے مقابل پر امن سے سو رہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے  آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں… کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو…خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے۔ “
( شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب پیغام صلح میں ہندوستان کی دو بڑی قوموں مسلمانوں اور ہندوؤں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :
”ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں اور دین و دنیا کی مشکلات میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں اور ایسی ہمدردی کریں کہ گویا ایک دوسرے کے اعضاء بن جائیں۔اے ہموطنو! وہ دین، دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو اور نہ وہ انسان ،انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو۔ “
( پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد 23صفحہ439)
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتےہیں:
”ماحول اور حال کو مدّ نظر رکھنا چاہئے ۔ دشمنوں کی طرف سے چوکس رہو اور ساتھ ہی اپنا ایمان بھی مضبوط رکھو کہ تمہارا خدا تمہارے چاروں طرف ہے۔ “
(خطبات محمود جلد 22 صفحہ604)