اَلۡمَعۡرِفَۃُ رَاسُ مَالِیۡ (حضرت محمدؐ) معرفت میرا سرمایہ  ہے (تقریر نمبر 1)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’خداتعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے یہی قانون ٹھہرا رکھا ہے کہ پہلے وہ امور غیبیہ پر ایمان لا کر فرمانبرداروں میں داخل ہوں اور پھر عرفان کا مرتبہ عطا کرکے سب عقد ے ان کے کھولے جائیں لیکن افسوس کہ جلد باز انسان اِن راہوں کو اختیار نہیں کرتا۔ خداتعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص ایمانی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو مان لیوے تو وہ اگر مجاہدات کے ذریعہ سے ان کی حقیقت دریافت کرنا چاہے وہ اس پر بذریعہ کشف اور الہام کے کھولے جائیں گے اور اس کے ایمان کو عرفان کے درجہ تک پہنچایا جائے گا‘‘
)آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر 5صفحہ 253حاشیہ )

مزید پڑھیں

میری آل (حضرت محمدؐ)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ’’مَنْ آلُکَ‘‘ کہ آپ کی آل سے کیا مراد ہے ؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کُلُّ تَقِیٍّ “ کہ ہر نیک اور متقی آدمی میری آل میں شامل ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ اِنْ اَوْلِیَاءُہٗ اِلَّا الْمُتَّقُونَ (الانفال: 35) جس کا ترجمہ یہ ہے کہ حرمت والی مسجد کے حقیقی وارث متقیوں کے سوا اور کوئی نہیں ۔
(حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر996 (

مزید پڑھیں

صحابۂ رسولؐ کا عشق رسولؐ

ہجرتِ مدینہ کے وقت حضرت ابوبکرؓ نے ایک مشرک سراقہ کو تعاقب میں آتے دیکھا تو رو پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ پوچھی تو عرض کیا۔
’’اپنی جان کے خوف سے نہیں آپؐ کی وجہ سے روتا ہوں کہ میرے آقا کو کوئی گزند نہ پہنچے۔‘‘
(مسند احمد جلد1 صفحہ 2مصر)

مزید پڑھیں

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ کی رُو سے اخلاقی بُرائیوں سے بچنے کی نصائح

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہو گا کہ ان تمام وصیتوں کے کار بند ہوں اور چاہیے کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی ناپاکی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو اور نیک دل اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو اور یاد رکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں ہے اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو،صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرواور جذبات نفس کو دبائے رکھواور اگر کوئی بحث کرو یا کوئی مذہبی گفتگو ہو تو نرم الفاظ میں اور مہذبانہ طریق سے کرو اور اگر کوئی جہالت سے پیش آوے ۔ سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ۔اگر تم ستائے جاؤاور گالیاں دیے جاؤ اور تمہارے حق میں بُرے بُرے لفظ کہیں جائیں تو ہوشیار رہو کہ سفاحت کا سفاحت کے ساتھ تمہارا مقابلہ نہ ہو ورنہ تم بھی ویسے ہی ٹھہرو گے جیساکہ وہ ہیں۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بنا دے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہرو۔ سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلدی نکالوجو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بد نفسی کا نمونہ ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے۔کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقیناًوہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔سو تم ہوشیار ہو جاؤاور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راست باز بن جاؤ۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 47۔ 48)

مزید پڑھیں

حضرت مسیح موعودؑ کے  آنے کی غرض ’’تا لوگ قوتِ یقین میں ترقی کریں‘‘ (تقریر نمبر 2)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ الم نشرح کی تفسیر میں ایک درس القرآن کے موقع پر فرماتے ہیں ۔
”قرآن کریم نے یقین کے مختلف مدارج بیان کئے ہیں۔ یوں تو اس کے ہزاروں مدارج ہیں مگر موٹے موٹے تین مدارج ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں جو خاص اصولی مضامین ہیں ان میں سے ایک یہ بھی مضمون ہے جو مراتب یقین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ پہلے صوفیاء کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں پہلے صوفیاء کی کتابوں میں بھی بے شک اس کا ذکر ملتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون میں جو جِدتیں پیدا کی ہیں وہ ان لوگوں کی تشریحات میں نہیں ہیں۔ بعض لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں تو امام غزالیؒ کی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں یا فلاں فلاں مضامین انہوں نے بھی بیان کئے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر اقبال نے کہہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کے مضامین صوفیاء کی کتابوں سے چرا لئے تھے حالانکہ اگر غور وفکر سے کام لیا جائے تو دونوں کے تقابل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے مضمون میں وہ باریکیاں پیدا نہیں کیں جو ایک ماہرِ فن پیدا کیا کرتا ہے اور نہ مضمون کی نوک پلک انہوں نے نکالی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس مضمون کو بھی لیا ہے ایک ماہرِ فن کے طور پر اس کی باریکیوں اور اس کے خدوخال پر پوری تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور کوئی پہلو بھی تشنۂ تحقیق رہنے نہیں دیا اور یہی ماہر کا کام ہوتا ہے کہ دوسروں سے نمایاں کام کر کے دکھا دیتا ہے۔ مثلاً تصویرکھینچنا بظاہر ایک عام بات ہے ہر شخص تصویرکھینچ سکتا ہے میں بھی اگر پنسل لے کر کوئی تصویر بنانا چاہوں تو اچھی یا بُری جیسی بھی بن سکے کچھ نہ کچھ شکل بنا دوں گا مگر میری بنائی ہوئی تصویر اور ایک ماہرِ فن کی بنائی ہوئی تصویر میں کیا فرق ہوگا یہی ہوگا کہ ماہرِفن اس کی نوکیں پلکیں خوب درست کرے گا اور میں صرف بے ڈھنگی سی لکیریں کھینچ دینے پر اکتفا کر دوں گا۔ پس کسی مضمون کا خالی بیان کر دینا اَور بات ہوتی ہےاور اس کی نوک پلک درست کر کے اسے بیان کرنا اور بات ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گو بعض جگہ وہی مضامین لئے ہیں جو پُرانے صوفیاء بیان کرتے چلے آئے تھے مگر آپ کے بیان کردہ مضامین اور پہلے صوفیاء کے بیان کردہ مضامین میں وہی فرق ہے جو ایک اناڑی اور ماہر مصور کی بنائی ہوئی تصاویر میں ہوتاہے۔ انہوں نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جیسے ڈرائنگ کا ایک طالب علم کھینچتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جس طرح ایک ماہرِفن تصویر کھینچ کر اپنے کمالات کا دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرتا ہے اور پھر ہر بات پر قرآن کریم سے شاہد پیش کر کے بتایا ہے کہ اس مضمون کا بتانے والا قرآن کریم ہے۔“
(الفضل قادیان 15؍ اپریل 1946ء)

مزید پڑھیں

حضرت مسیح موعودؑ کے  آنے کی غرض ’’تا لوگ قوتِ یقین میں ترقی کریں‘‘ (تقریر نمبر 1)

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سچائی کی فتح ہو گی اور اسلام کے لئے پھر اُس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اُسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلّتیں قبول نہ کرلیں۔ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ہمارا اسی راہ میں مرنا۔یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے۔‘‘
(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد 3 صفحہ10۔ 11)

مزید پڑھیں

صحبتِ صالحین کی اہمیت ( خلفاء کے اِرشادات کی روشنی میں)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحبت صالحین کے متعلق میں فرماتے ہیں کہ
’’انسان ہمیشہ اپنے گندے جلیسوں کی و جہ سے تباہی کے گڑھے میں گرا کرتا ہے۔ وہ پہلے تواپنے دوستوں کی مصاحبت پر فخر کرتا ہے۔ مگر جب اسے کسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ لَیْتَنِیْ لَمْ اَ تَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا کہ اے کاش! مَیں فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا اس نے تو مجھے گمراہ کردیا۔ اسی و جہ سے قرآن کریم نے مومنوں کو خاص طور پر نصیحت فرمائی ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(التوبہ: 119)یعنی اے مومنو! تم ہمیشہ صادقوں کی معیت اختیار کیا کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے گردوپیش کی اشیاء سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا مگر وہ اپنی دوستی اور ہم نشینی کے لئے ان لوگوں کا انتخاب کرے گا جو اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوں گے اور جن کا مطمح نظر بلند ہو گا تو لازماً وہ بھی اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا اور رفتہ رفتہ اس کی یہ کوشش اس کے قدم کو اخلاقی بلندیوں کی طرف بڑھانے والی ثابت ہوگی۔ لیکن اگر وہ بُرے ساتھیوں کا انتخاب کرے گا تو وہ اسے کبھی راہ راست کی طرف نہیں لے جائیں گے۔ بلکہ اسے اخلاقی پستی میں دھکیلنے والے ثابت ہوں گے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ481)

مزید پڑھیں

صحبتِ صالحین کے ذرائع

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کتب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے متعلق فرماتے ہیں:
’’آپؑ کی کتب پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دینی چاہئے یہ بات بھی صحبتِ صادقین کے زمرے میں آتی ہے کہ آپؑ کے علم کلام سے فائدہ اٹھایا جائے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد سوم صفحہ394)

مزید پڑھیں

سادھ سنگت ( چند مثالوں کی روشنی میں)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ )التوبہ (119:بھی اسی واسطے فرمایا گیا ہے۔ سادھ سنگت بھی ایک ضرب المثل ہے۔ پس یہ ضروری بات ہے کہ انسان باوجود علم کے اور باوجود قوّت۔وشوکت کے امام کے پاس ایک سادہ لوح کی طرح پڑا رہے تا اس پر عمدہ رنگت آوے۔ سفید کپڑا اچھا رنگا جاتا ہے اور جس میں اپنی خودی اور علم کا پہلے سے کوئی میل کچیل ہوتا ہے اس پر عمدہ رنگ نہیں چڑھتا۔ صادق کی معیت میں انسان کی عقدہ کشائی ہوتی ہے اور اسے نشانات دئے جاتے ہیں جن سے اس کا جسم منور اور روح تازہ ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ262۔263 ایڈیشن 2016ء)

مزید پڑھیں

اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰهِ ( سیرتِ رسولؐ کے آئینہ میں)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’قرابت نوازی ،حسن خلق اور خوشگوار ہمسائیگی سے بستیاں آباد ہوتی ہیں اور عمریں دراز ہوتی ہیں۔‘‘

مزید پڑھیں