سُمِّيْتُ أَحْمَدَ) حضرت محمدؐ) میرا نام احمد رکھا گیا (تقریر نمبر 11)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
اِسْمِیْ فِی الْقُرَانِ مُحَمَّد وَفِی الانجیل اَحْمَدُ
کہ میرا نام قرآن میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے اور انجیل میں احمد ہے۔
(خصائص الکبریٰ جلد اول صفحہ 78 )

مزید پڑھیں

جُعِلَتْ اُمَّتِیْ خَيْرَ الْأُمَمِ (حضرت محمدؐ ) میری امت کو بہترین امت بنایا گیا ہے (تقریر نمبر10)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
” وہ لوگ جو دین کے لئے وعظ کرتے ہیں ان کی بھی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں ایک وہ جو محض اِس لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں اور امر بالمعروف کا جو فرض ان کو ملا ہے اس کو ادا کریں۔ بنی نوع انسان کی بھلائی کا جو حکم ہے اس کی تعمیل کریں اور اپنے آپ کو خیرِ اُمّت میں داخل ہونے کی فِکر ہوتی ہے جس کا ذکر یُوں کیا گیا ہے کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ (الآیہ )تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہو امر بالمعروف کرتے رہو اور نہی عن المنکر … مَیں دُنیا پرست واعظوں کا دشمن ہوں کیونکہ ان کی اغراض محدود ، ان کے حَوصلے چھوٹے ، خیالات پَست ہوتے ہیں جس واعظ کی اغراض دینی ہوں وہ ایک ایسی زبردست اور مضبوط چٹان پر کھڑا ہوتا ہے کہ دُنیوی وعظ سب اس کےاندر آجاتے ہیں کیونکہ وہ ایک اَمر بالمعروف کرتا ہے ۔ ہر بھلی بات کا حکم دینے والا ہوتا اور ہر بُری بات سے روکنے والاہوتا ۔“
(الحکم 17 مارچ 1903۔ صفحہ:14-15)

مزید پڑھیں

جُعِلَ التَّرَابُ لِیْ طَہُوْرًا ( حضرت محمدؐ ) مٹی کو میرے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دیا گیا (تقریر نمبر 9)

سعید بن عبدالرحمٰن اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عمربن خطابؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جُنبی ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا۔ تو حضرت عمار بن یاسرؓ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے کہا۔ کیا آپؓ کو یاد نہیں کہ ہم یعنی مَیں اور آپ ایک سفر میں تھے۔ آپؓ نے تو نماز نہ پڑھی اور مَیں تو مٹی میں جانوروں کی طرح لوٹا اور نماز پڑھ لی۔ گویا پانی نہ ہونے کی وجہ سے تیمّ کیا۔ مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کو صرف اس طرح کافی تھا اور آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے۔ پھر اِن پر پھونکا اور اپنے منہ اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا۔
(صحیح بخاری کتاب التیمّم حدیث 338)

مزید پڑھیں

اُتِیْتُ بِمَفَاتِیْحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ( حضرت محمدؐ ) مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں (تقریر نمبر 8)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’بعض واقعات پیشگوئیوں کے جن کا ایک ہی دفعہ ظاہر ہونا امید رکھا گیا ہے وہ تدریجاً ظاہر ہوں یا کسی اَور شخص کے واسطہ سے ظاہر ہوں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی کہ قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپؐ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوچکے تھے اور آنجنابؐ نے نہ قیصر اور کسریٰ کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کنجیاں دیکھیں۔ مگر چونکہ مقدر تھا کہ وہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلّی طور پرگویا آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تھا اس لیے عالمِ وحی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قرار دیا گیا۔ ‘‘
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 265)

مزید پڑھیں

خُتِ٘مَ بِیَ النَّبِیُّوۡنَ    (حضرت محمدؐ) میرے ذریعہ نبیوں پر مہر لگائی گئی ہے (تقریر نمبر 7)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
”آپؐ کی تصدیق کے بغیر اور آپؐ کی تعلیم کی شہادت کے بغیر کوئی شخص نبوت یا ولایت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا ۔ لوگوں نے نبیوں کی مہر کی جگہ آخری نبی کے معنی لئے ہیں مگر اس سے بھی ہماری پوزیشن میں فرق نہیں آتا۔“
( تفسیر صغیر فٹ نوٹ زیر آیت الاحزاب : 41)

مزید پڑھیں

اُحِلَّتۡ لِیَ الۡغَنَائِمُ  (حضرت محمدؐ) غنیمتیں میرے لئے جائز کی گئی ہیں (تقریر نمبر 6)

حضرت خلیفۃُ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے سورۃ انفال آیت 2 کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ:
”یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ: تین الفاظ ہیں۔ فَے ، غنیمت ، نفل۔ 1۔ فَے : جس مال پر مسمانوں کا کچھ بڑا خرچ نہ ہوا ہو جیسے سورہ حشر میں فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ ۔ ( حشر:7)۔ 2۔ نفل: وہ مال جو خرچ کے بالمقابل زیادہ ملا ہو۔ 3۔ غنیمت : اِس لفظ کے معنوں میں عام لوگوں نے سخت غلطی کھائی ہے … غنیمت کے معنی لُوٹ کے کئے جاتے ہیں۔ عربی زبان میں غنیمت کہتے ہیں ۔ مطلق حصولِ مال کو۔ “
(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ250)

مزید پڑھیں

اُعۡطِیۡتُ جَوَامِعَ الۡکَلِمِ ( حضرت محمدؐ ) مجھے جوامع الکلم دیئے گئے ہیں ( تقریر نمبر 5)

امام زہریؒ کے علاوہ بعض کا خیال ہے کہ جَوَامِعُ الکَلِم سے مراد قرآن کریم ہے اور اس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ مَیں جَوَامِعُ الکَلِم کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں اور قرآن کا یہ اعجاز تو بڑا نمایاں ہے کہ اس کے الفاظ تو مختصر ہیں لیکن معنی میں بہت زیادہ وسعت ہے۔

مزید پڑھیں

ہمارے دل کی زباں ہیں جلسے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمۂِ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں۔ عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اَوہام پرست مخالفوں کا، نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالفِ قرآن روایتوں کو ملانے والے، اور خدا تعالیٰ اس اُمتِ وَسط کے لئے بَین بَین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا۔ وہی راہ جس کو قرآن لایا تھا، وہی راہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی تھی۔ وہی ہدایت جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے۔ یہی ہو گا۔ ضرور یہی ہو گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔ مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 341- 342)

مزید پڑھیں

بُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَافَّۃً (حضرت محمدؐ) مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے (تقریر نمبر 4)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ اللہ تعالیٰ جو انبیاء کو بھیجتا ہے اور آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے دنیا کی ہدایت کے واسطے بھیجا اور قرآن مجید کو نازل فرمایا تو اس کی غرض کیا تھی؟ ہر شخص جو کام کرتا ہے اس کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے۔ ایسا خیال کرنا کہ قرآن شریف نازل کرنے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کی کوئی غرض اور مقصدنہیں ہے کمال درجہ کی گستاخی اور بے ادبی ہے کیونکہ اس میں (معاذ اللہ)، اللہ تعالیٰ کی طرف ایک فعل عبث کو منسوب کیا جائے گا۔ حالانکہ اس کی ذات پاک ہے (سبحانہ وتعالیٰ شانہٗ)۔ پس یاد رکھو کہ کتاب مجید کے بھیجنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ تا دنیا پر عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھاوے جیسے فرمایا۔ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (الانبیاء: 108) اور ایسا ہی قرآن مجید کے بھیجنے کی غرض بتائی کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن (البقرہ: 3)۔ یہ ایسی عظیم الشان اغراض ہیں کہ ان کی نظیر نہیں پائی جا سکتی۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 340)

مزید پڑھیں

اُعۡطِیۡتُ الشَّفَاعَۃَ وَلَمۡ یُعۡطَ نَبِیٌّ قَبۡلِیۡ   (حضرت محمدؐ) مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو حاصل نہیں ہوئی (تقریر نمبر 3)

حضرت خلیفۃُ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”شفاعت کی حقیقت سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری یے کہ یہ لفظ شفع سے نکلا ہے اور مندرجہ آیت اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (آل عمران: 32)سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع انسان کے گناہوں کی مغفرت کا موجب ہے۔ حضور انور کی ذات ستودہ صفات ایک نور ہے جو اس نور سے تعلق پیدا کرتا ہے۔ اس سے ظلمات دور ہوتی ہیں۔ یہ شفاعت ہے۔ مجرموں کی جنبہ بازی کا نام شفاعت نہیں جیسا کہ بعض نادانوں نے غلطی سے سمجھا ہے اور اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ “
(تشحیذ الاذہان جلد 7 صفحہ 136)

مزید پڑھیں