پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’وہ شاخ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جاتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ233)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’وہ شاخ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جاتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد4 صفحہ233)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا تھا جو ہر بُرائی میں ملوث تھا۔ چوری بہت کرتا تھا۔ ڈاکہ بھی ڈالتا تھا۔ زنا بھی کرتا تھا اور جھوٹ بھی بولتا تھا ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے یہی نصیحت فرمائی تھی کہ جھوٹ ترک کردو۔ وہ جھوٹ ترک کرنے کے پختہ عزم کے ساتھ دربارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہوا اور جب بھی بُرائی کی طرف بڑھا۔ ہمیشہ یہی خیال دل میں جنم لیتا کہ اگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ کام کیا ہے؟ اگر وہ بُرا کام کیا ہو اور مَیں کہوں کہ نہیں کیا تو یہ جھوٹ ہوگا جبکہ خدا مجھے دیکھ رہا ہو گا اور اگر کہا۔ کیا ہے تو یہ اپنی ذات میں قابل سرزنش ہے اوریوں اس نے تمام بُرائیوں اور بدیوں کو خیر آباد کہہ دیا۔ اس کے سامنے ایک ذات سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی اور اگر اس عظیم ذات کو پیدا کرنے والی ہستی کو ہم اپنی زندگیوں میں مدنظر نظر رکھیں تو کیا کایا نہیں پلٹ سکتی۔
مزید پڑھیںحضرت مسیح موعود علیہ السلام  فرماتے ہیں کہ
”سچی توبہ درحقیقت ایک موت ہے جو انسان کے ناپاک جذبات پر آتی ہے اور ایک سچی قربانی ہے جو انسان اپنے پورے صدق سے حضرت احدیت میں ادا کرتا ہے اور تمام قربانیاں جو رسم کے طور پر ہوتی ہیں اسی کا نمونہ ہے۔ “
(قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 447-448)  
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے دو نام تھے۔ محمدؐ جو جلالی نام تھا اور احمدؐ جوکہ جمالی نام تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی نام احمدؐ کی صفت پر ہے اور یہ دَور بھی جمالی یعنی محبت و پیار کا دَور ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے فرقہ کا نام ’’مسلمان فرقہ احمدیہ‘‘ رکھ کر اس کی توجیہ یہ فرمائی کہ
’’ اِس فرقہ کا نام مسلمان فرقہ احمدیہ اس لئے رکھا گیا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام تھے ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ دوسرا احمد  صلی اللہ علیہ وسلم اور اسم محمد جلالی نام تھا اور اِس میں یہ مخفی پیشگوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  اُن دشمنوں کو تلوار کے ساتھ سزا دیں گے جنہوں نے تلوار کے ساتھ اسلام پر حملہ کیا اور صد ہا مسلمانوں کو قتل کیا۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے۔ سو خدا نے ان دو ناموں کی اس طرح پر تقسیم کی کہ اوّل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کی زندگی میں اسم احمدکا ظہور تھا اور ہر طرح سے صبر اور شکیبائی کی تعلیم تھی اور پھر مدینہ کی زندگی میں اسم محمد کا ظہور ہوا اور مخالفوں کی سرکوبی خدا کی حکمت اور مصلحت نے ضروری سمجھی لیکن یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانہ میں اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہوگا جس کے ذریعہ سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پس اِسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا جائے تا اِس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اِس فرقہ کو کچھ سروکار نہیں۔ سو اے دوستو! آپ لوگوں کو یہ نام مبارک ہو اور ہر ایک جو امن اور صلح کا طالب ہو یہ فرقہ بشارت دیتا ہے۔ نبیوں کی کتابوں میں پہلے سے اس مبارک فرقہ کی خبر دی گئی ہے اور اس کے ظہور کے لئے بہت سے اشارات ہیں۔ زیادہ کیا لکھا جائے خدا اس نام میں برکت ڈالے۔ خدا ایسا کرے کہ تمام روئے زمین کے مسلمان اِسی مبارک فرقہ میں داخل ہوجائیں تا انسانی خونریزیوں کا زہر بکلی اُن کے دلوں سے نکل جائے اور وہ خدا کے ہو جائیں اور خدا اُن کا ہو جائے۔ اے قادرو کریم! تو ایسا ہی کر۔ آمین‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ 527۔ 528)
حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ:
 ایک دفعہ میرے لڑکے عبدالمجید نے جس کی عمر اُس وقت قریباً چار برس کی تھی۔ اس بات پر اصرار کیا کہ میں نے حضرت صاحب کو چمٹ کر یعنی ’’جپھی‘‘ ڈال کر ملنا ہے۔ اُس نے مغرب کے وقت سے لے کر صبح تک یہ ضد جاری رکھی اور ہمیں رات کو بہت تنگ کیا۔ صبح اُٹھ کر پہلی گاڑی میں اُسے لے کر بٹالہ پہنچا اور وہاں سے ٹانگے پر ہم قادیان گئے اور جاتے ہی حضرت صاحب کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ عبدالمجید آپ کو ملنا چاہتا ہے۔ گلے ملنا چاہتا ہے یا ’’جپھی‘‘ ڈالنا چاہتا ہے۔ (چھوٹا سا بچہ ہی تھا۔ چار سال عمر تھی) حضورؑ اس موقع پر باہر تشریف لائے اور عبدالمجید آپ کی ٹانگوں کو چمٹ گیا اور اس طرح اُس نے ملاقات کی اور پھر وہ چار سال کا بچہ کہنے لگا کہ ’’ہن ٹھنڈ پے گئی اے۔ ‘‘
 (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ12 روایت حضرت حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام  اپنے صحابہؓ کی مالی قربانیوں کا خود بھی ذکر فرمایا کرتے تھے ۔ آپؑ فرماتے ہیں:
”میاں شادی خان لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں۔ ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپے چندہ دے چکے ہیں اور اب اس کام کے لیے دو سو روپے چندہ بھیج دیا ہے اور یہ وہ متوکّل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ‘‘چونکہ ایامِ قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں اس لیے جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیااور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا۔‘‘
)مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 315۔ اشتہار یکم جولائی1900ء)
حضرت میاں محمد دین صاحبؓ 313 اصحاب میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ آپ بچپن میں پنجوقتہ نمازوں اور تہجد کا اہتمام کرتے تھے مگر پھر اپنے ماحول کے زیر اثر تارک صلوٰۃ ہوگئے اور دہریت کا شکار ہوتے گئے۔ تقدیرِ الٰہی کے تابع آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ پڑھنے کی توفیق ملی اور ہستی باری تعالیٰ کے دلائل پڑھ کر دہریت کے سارے زنگ اُتر گئے۔ اُسی وقت کپڑے دھوئے اور گیلے کپڑے پہن کر ہی نماز پڑھنی شروع کی۔ محویت کے عالَم میں ایک طویل نماز پڑھی۔ فرماتے ہیں یہ نماز ’’براہین‘‘ نے پڑھائی اور بعد ازاں آج تک کوئی نماز مَیں نے نہیں چھوڑی۔
مزید پڑھیںمکرم مولانا محمد صدیق امرتسری مرحوم سابق مبلغ سیرا لیون اپنی  سوانح عمری میں تحریر کرتے ہیں:
جہاں تک مجھے یاد ہے سیرالیون میں الحاج علی روجرز واحد ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے احمدی ہوتے ہی الحاج مولانا نذیر احمد علی کی تحریک پر محض اسلام کی تعلیم پر صحیح طور پر عمل کرنے کی خاطر اور خوفِ خدا دل میں رکھتے ہوئے اور قیام شریعت کی غرض سے اپنی 15 بیویوں میں سے صرف چار دیندار اور مناسب حال منتخب کر کے باقی گیارہ بیویوں کو طلاق دے کر با عزت و احترام رخصت کر دیا تھا۔ حالانکہ ان میں سے اکثر اچھے خاندان اور امیر گھرانوں کی با اولاد خواتین تھیں۔
(روح پرور یادیں صفحہ424)
حیدرآباد دکن سے بیعت کرنے والے سب سے پہلے خوش قسمت حضرت میر مردان علی صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام  کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’اگر ہماری جانیں بھی حضورؑ کے قدموں پر نثار ہوجائیں تو ہم حقِ خدمت سے سُبکدوش نہیں ہو سکتے۔ ‘‘
(الحکم 21؍جنوری 1903ء صفحہ 4)
حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ آف قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ حضورؑ کے دعویٰ سے بہت پہلے فروری 1885ء میں حضورؑ کی زیارت سے پہلی بار مشرف ہوئے اور صرف پانچ روزہ قیام میں حضورؑ کی صحبت سے اس قدر متأثر ہوئے کہ واپس روانگی سے پہلے مسجد اقصیٰ کی دیوار پر یہ فارسی شعر لکھ گئے۔
حسن و خوبی و دلبری بر تو تمام
صحبتے بعد از لقائے تو حرام
یعنی حسن و خوبی اور دل کشی کا خدا داد ملکہ آپؑ کی ذات پر مکمل ہو چکا ہے۔ اس لیے اب کوئی بھی صحبت آپؑ کی صحبت اور ملاقات کے بعد حرام ہے۔
(اصحاب احمد جلد ششم صفحہ11)