صحابہ رضوان اللہ علیہم کا عشقِ رسولؐ

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ گالیاں سنتے تھے، جان کی دھمکیاں دے کر ڈرائے جاتے تھے اور سب طرح کی ذلّتیں دیکھتے تھے پر کچھ ایسے نشۂ عشق میں مدہوش تھے کہ کسی خرابی کی پروانہیں رکھتے تھے اور کسی بلا سے ہراساں نہیں ہوتے تھے… ایسے نازک زمانہ میں وفاداری کے ساتھ محبت اور عشق سے بھرے ہوئے دل سے جو دامن پکڑا جس زمانہ میں آئندہ کے اقبال کی تو کیا امید، خود اس مرد مصلح کی چند روز میں جان جاتی نظر آتی تھی۔یہ وفاداری کا تعلق محض قوت ایمانی کے جوش سے تھا جس کی مستی سے وہ اپنی جانیں دینے کے لئے ایسے کھڑے ہوگئے جیسے سخت درجہ کا پیاسا چشمہ شیریں پر بے اختیار کھڑا ہوجاتاہے۔ ‘‘
( ازالۂ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 152-151حاشیہ)

مزید پڑھیں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ دیکھیں! انسانی ہمدردی کی انتہا۔ آپ ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دشمن کے منہ پرزخم نہیں لگانا۔ کوشش کرنی ہے کہ دشمن کو کم از کم نقصان پہنچے۔ قیدیوں کے آرام کا خیال رکھنا ہے۔ غالباً جنگ بدر کے ایک قیدی نے بیان کیا کہ جس گھر میں وہ قید تھا اس گھر والے خود کھجور پر گزارا کرتے تھے اور مجھے روٹی دیا کرتے تھے اور اگر کسی بچے کے ہاتھ میں بھی روٹی آ جاتی تھی تو مجھے پیش کر دیتے تھے۔ اس نے ذکر کیاکہ مَیں بعض دفعہ شرمندہ ہوتاتھا اور واپس کرتا تھا لیکن تب بھی (کیونکہ یہ حکم تھا، اسلام کی تعلیم تھی) وہ باصرار روٹی مجھے واپس کر دیا کرتے تھے کہ نہیں تم کھاؤ۔ تو بچوں تک کا یہ حال تھا۔ یہ تھی وہ سلامتی کی تعلیم، امن کی تعلیم، ایک دوسرے سے پیار کی تعلیم، دوسروں کے حقوق کی تعلیم جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں قائم کی اور بچہ بچہ جانتاتھا کہ اسلام امن و سلامتی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ 29؍جون 2007ء)

مزید پڑھیں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمنوں سے حسنِ سلوک

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بری طرح ستایا گیا۔ مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ (الاعراف: 200) کا ہی خطاب ہوا۔ خود اس انسان کامل ہمارے نبی کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں۔ مگر اس خلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا؟ ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گاتو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔‘‘
( رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ99 )

مزید پڑھیں

اسلامی تہذیب و تمدن(غیروں کے حقوق کے حوالہ سے)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
” اسلام نے ہمارے لیے ہر بات کے متعلق احکام دے رکھے ہیں۔ یہ احکام بیکار اور فضول نہیں بلکہ نہایت ضروری ہیں اور انہی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مجموعہ کا نام اسلامی تمدن ہے۔ اسلامی تمدن نماز کا نام نہیں، روزے کا نام نہیں ، زکوۃ کا نام نہیں ہے بلکہ ان چھوٹے چھوٹے احکام کے مجموعہ کا نام ہے جو ایسا تغیر پیدا کر دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے وہ سوسائٹی دوسری سوسائٹیوں سے نمایاں اور ممتاز نظر آتی ہے ۔“
(خطبہ جمعہ 21 اپریل 1933 )

مزید پڑھیں

سیرت حضرت سیّدہ بُشریٰ بیگم صاحبہ(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

حضرت سیّدہ بُشریٰ بیگم صاحبہ کو یہ خاص اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو ایک رویأ میں خبر دی گئی تھی ’’ ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے کہ مہر آپا کو بلاؤ ‘‘ یعنی محبت کرنے والی آپا ۔ اس مناسبت سے آپ کو مہر آپا کے نام سے پکارا جانے لگا ۔

مزید پڑھیں

سیرت حضرت سیّدہ عزیزہ بیگم صاحبہ(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

مکرم سید کمال یوسف صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ
’’ جامعۃالمبشرین سے فارغ ہوکر ظہر کی نماز سے قبل گھر (قصر خلافت) آنا ہوتا تو نماز ظہر کا وقت اتنا قریب ہوتا کہ کھانے میں ذرا سی تاخیر سے بھی ظہر کی باجماعت نماز سے محروم ہونے کا دھڑکا لگا رہتا۔ خاکسار کو یاد نہیں کہ خاکسار کے تقریباً اڑھائی سال کے قیام کے عرصہ میں کبھی ایک دفعہ بھی ایسا ہوا ہو کہ خاکسار کو ظہر کی نماز باجماعت نہ ملی ہو یا اس سے پہلے ظہرانہ بروقت نہ ملا ہو۔ حضرت اُمّ وسیم صاحبہ خاکسار کی نمازباجماعت کا اس قدر خیال رکھتیں کہ خاکسار کے گھر میں قدم رکھتے ہی ملازمہ کو آواز لگاتیں کہ جلد کھانا نکال لاؤ کہیں نماز میں تاخیر نہ ہو جائے۔‘‘
(خدیجہ 2013ء شمارہ نمبر1صفحہ245)

مزید پڑھیں

سیرت حضرت سیّدہ سارہ بیگم صاحبہ(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کے حصولِ علم کے جذبے کے بارے فرماتےہیں :
’’اس سے بھی زیادہ فرق ان کی تعلیم اور دوسروں کی تعلیم میں یہ تھا کہ دوسری عورتیں اپنے نفس یا اپنی قوم کیلئے تعلیم حاصل کرتی ہیں انہوں نے اپنے آخری سالوں میں محض اللہ تعالی کی خوشنودی کیلئے، اسلام کی خدمت کیلئے تعلیم حاصل کی۔ اس لئے اس بوجھ کو اٹھایا کہ جماعت کی مستورات کی دینی اور دنیوی ترقی کیلئے مفید ہو سکیں۔ غرض پیدائش اور موت کے علاوہ ان کا سب وقت دوسروں کے فائدہ کیلئے خرچ ہوا۔ انہوں نے اپنی زندگی سے ایک ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔‘‘
( انوار العلوم جلد13 صفحہ 84)

مزید پڑھیں

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتےہیں :
’’ مریم ایک بہادر عورت تھیں جب کوئی نازک موقع آتا میں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کرسکتا تھا۔ ان کی نسوانی کمزوری اس وقت دب جاتی تھی چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے تھے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔ یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی۔ انہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لیے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہوجاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو بھول جاتیں کھانے پینے کو۔بھول جاتیں اپنے بچوں کو۔ بلکہ بھول جاتیں مجھ کو بھی اور صرف وہ کام ہی یاد رہ جاتا اور اس کے بعد وہ ہوتیں اور گرم پانی کی بوتلیں۔‘‘
(انوار العلوم جلد 17 صفحہ 353-354)

مزید پڑھیں

سیرت حضرت سیّدہ امۃ الحئی صاحبہ رضی اللہ عنہا(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہ کے متعلق فرماتے ہیں :
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔الْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ کہ روحیں ایک دوسرے سے وابستہ اور پیوستہ ہوتی ہیں۔یعنی بعض کا بعض سے تعلق ہوتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میری روح کو امۃ الحئی کی روح سے ایک پیوستگی حاصل تھی…میں نہیں جانتا تھا یہ میری نیک نیتی اور اپنے اُستاد اور آقا کی خواہش کو پورا کرنے کی آرزو ایسے اعلیٰ درجہ کے پھل لائے گی اور میرے لیے اس سے ایسے راحت کے سامان پیدا ہوں گے۔مجھے بہت سی شادیوں کے تجربے ہیں۔میں نے خود بھی کئی شادیاں کی ہیں اور بحیثیت ایک جماعت کا امام ہونے کے ہزاروں شادیوں سے تعلق ہے اور ہزاروں واقعات مجھ تک پہنچتے رہتے ہیں مگر میں نے عمر بھر کوئی کامیاب شادی اور خوش کرنے والی شادی نہیں دیکھی جیسی میری یہ شادی تھی۔‘‘
( خطباتِ محمود جلد 3صفحہ204۔205)

مزید پڑھیں

سیرت حضرت سیّدہ محمودہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ کی الفضل کے اجرا میں قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
”خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے زیاده مذموم تھا، اپنے دو زیور مجھے دے دیئے کہ میں ان کو فروخت کرکے اخبار جاری کر دوں۔ ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم سلّمہا اللہ تعالیٰ کےاستعمال کے لئے رکھے ہوئےتھے۔میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔ الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا…اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دئیے جس سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میرے لئے زندگی کا نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کردیا…میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو مَیں کیا کرتا اور میرے لئے خدمت کا کونسا دروازہ کھولا جاتا اور جماعت میں روزمرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دُور کیا جاسکتا‘‘
(یادایام، انوار العلوم جلد8 صفحہ369-370)

مزید پڑھیں