آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قناعت و سادگی
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا فرماتے تھے کہ
’’اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں زندہ اُٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔‘‘
(ترمذی)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا فرماتے تھے کہ
’’اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں زندہ اُٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔‘‘
(ترمذی)
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جب آپؐ سے بات کرنے لگا تو وہ کانپنے لگ گیا۔ اس پر آپؐ نے اس کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تسلی رکھو میں کوئی بادشاہ تونہیں۔ میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی۔
)سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب القدید(
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
میں نے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھی گویا آفتاب کی چمک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بہہ رہی ہوتی تھی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ تیز چلنے والا کوئی نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لیے سمٹتی چلی جاتی تھی۔ہم بڑی جدوجہد کرتے ہوئے آپ کے ساتھ چلتے اور آپ بڑے اطمینان سے چل رہے ہوتے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا کیا کرتے تھے کہ
اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَدُعَآءٍ لَا یُسْمَعُ وَمِنْ نَّفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ۔ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھٰؤُلَآءِ الْاَرْبَع۔
کہ اے اللہ! مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو خشوع نہیں کرتا اور ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی اور ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا اور ایسے علم سے جو نفع رساں نہیں ہے۔ مَیں تجھ سے ان چاروں سے پناہ چاہتا ہوں۔
(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 68 حدیث: 3482)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا نام آمنہ بنت وہب تھا ۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو قریش ہی کا ایک ذیلی قبیلہ تھا۔ آپ کے والد کا نام وہب بن عبدمناف تھا۔ آپ کے والد اپنے قبیلے کے معزز سردار تھے اور بنو زہرہ قبیلے میں ایک مثالی حیثیت کے مالک تھے ۔
مزید پڑھیںعبد اللہ ابن عبد المطلب تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ باپ کے لاڈلے اور پیارے تھے۔ آپ حسن و خوبی کے پیکر اور جمالِ صورت و کمال سیرت کے آئینہ دار اور عفت و پارسائی میں یکتائے روزگار تھے ۔
مزید پڑھیںحضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا اور شہد بھی بہت پسند تھا۔ آپ ؐ بُھنا ہوا گوشت بھی بخوشی تناول فرماتے ۔
مزید پڑھیںایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے تو دیکھا کہ آپؐ کا ایک بدوی صحابی زاہر ؓمحنت مزدوری کر رہا ہے۔ ایک تو شکل کچھ ایسی اچھی نہ تھی دوسرے گردو غبار اور پسینہ کی وجہ سے اور بھی بد نما دکھائی دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے دوست کو دیکھا تو قلبی محبت بھڑک اٹھی۔ آپ نے دبے پاؤں قریب جا کر پیچھے سے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔ زاہر حیرت میں گم ہو گیا کہ مجھ غریب، بے کس اور بد صورت سے اِس انداز میں اظہار محبت کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ پھر خود ہی خیال آیا کہ رحمتِ دو عالم، محمد عربی کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ ہاتھوں کو چھوا تو اس بات کا یقین ہو گیا۔ زاہرؓ نے موقع غنیمت جان کر اپناخاک آلود جسم آپ کے جسم مبارک سے ملنا شروع کردیا۔ زاہر کا یہ اندازِ محبت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے ۔
مزید پڑھیںحضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’ میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی نئی نسلیں جب تک اس دین اور ان اصول کی حامل نہ ہو ں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے نبی اور ماموردنیا میں قائم کرتے ہیں اس وقت تک اس سلسلہ کی ترقی کی طرف کبھی بھی صحیح معنوں میں قدم نہیں اٹھ سکتا ۔‘‘
)الفضل 10؍اپریل 1938ء(
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان نوازی کا معیار اس قدر بلند تھا کہ جو دوسروں کے مقابلے میں ایک امتیازی شان رکھتا تھا اور نبوت کے دعوے کے بعد تو یہ مہمان نوازی ایک ایسی اعلیٰ شان رکھتی تھی کہ جس کی مثال ہی کوئی نہیں ہے۔
اس بارہ میں آپؐ کے اُسوہ حسنہ کو دیکھیں تو صرف وہاں یہ نہیں ہے کہ سلامتی بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں بلکہ کھانے پینے کی مہمان نوازی کے علاوہ بھی یا استقبال کرنے کے علاوہ بھی ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں جن کے معیار اعلیٰ ترین بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کو کھانے کا انتظام کے احسن رنگ میں کرنے سے ہی صرف عزت نہیں بخشی بلکہ مہمان کے جذبات کا خیال بھی رکھا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال بھی رکھا اور اس کے لئے قربانی کرتے ہوئے بہتر سہولیات اور کھانے کا انتظام بھی کیا۔ اس کے لئے خاص طور پر اپنے ہاتھ سے خدمت بھی کی اور اس کی تلقین بھی اپنے ماننے والوں کو کی کہ یہ اعلیٰ معیار ہیں جو مَیں نے قائم کئے ہیں۔ یہ میرا اسوہ اس تعلیم کے مطابق ہے جو خداتعالیٰ نے مجھ پر اتاری ہے۔ تم اگر مجھ سے تعلق رکھتے ہو تو تمہارا یہ عمل ہونا چاہئے۔ تمہیں اگر مجھ سے محبت کا دعویٰ ہے تو اس تعلق کی وجہ سے، اس محبت کی وجہ سے، میری پیروی کرو اور یہ مہمان نوازی اور خدمت بغیر کسی تکلف، کسی بدل اور کسی تعریف کے ہو اور خالصتاً اس لئے ہو کہ خداتعالیٰ نے یہ اعلیٰ اخلاق اپنانے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہمارا مقصود اور مطلوب ہونا چاہئے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ17جولائی 2009ء)