اولاد دین کی پہلوان ہو (سیرت حضرت مسیح موعودؑ کے تناظر میں )

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:
مَیں بچپن میں اکثر دیکھتا کہ حضورؑ تہجد میں لمبی لمبی دعائیں کرتے اور اپنے بچوں کے لیے بھی بہت دعا کیا کرتے۔ کئی دفعہ مَیں نے سنا کہ حضور دعا میں روتے ہوئے یہ الفاظ دہرا رہے ہیں کہ
”اے اللہ! میری اولاد کو اپنا صالح بندہ بنا دے۔“

مزید پڑھیں

بنی نوع انسان سے ہمدردی اور خدمت انسانیت (حضرت مسیح موعودؑ کے پاک کلمات اور ارشادات  کے آئینہ میں) ( تقریر نمبر 3)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں اول یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نہ اُس کی ذات میں نہ صفات میں نہ عبادات میں اور دوسرے نوع.انسان سے ہمدردی کرو اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو۔ آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو۔ مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی۔ مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو۔ جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے ۔ اللہ تعالیٰ اُسی قدر تم سے خوش ہوگا۔ اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو۔ قیامت نزدیک ہے تمہیں ان تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہئے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو ان سے بہت دکھ اٹھانا پڑے گا کیونکہ جو لوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہو جاتے ہیں ان کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پھوٹ نکلتا ہے۔ پس دیندار کو چاہئے کہ اپنی زبان کو سنبھال کر رکھے۔‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ130)

مزید پڑھیں

بنی نوع انسان سے ہمدردی اور خدمت انسانیت (حضرت مسیح موعودؑ کے پاک کلمات اور ارشادات  کے آئینہ میں) ( تقریر نمبر 2)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
”مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا ایمان ہرگز درست نہیں ہوسکتا جب تک اپنے آرام پر اپنے بھائی کا آرام حتی الوسع مقدم نہ ٹھہرا وے ۔ اگر میرا ایک بھائی میرے سامنے باوجود اپنے ضعف اور بیماری کے زمین پر سوتا ہے اور مَیں باوجود اپنی صحت اور تندرستی کے چارپائی پر قبضہ کرتا ہوں تاوہ اس پر بیٹھ نہ جاوے تو میری حالت پر افسوس ہے اگر مَیں نہ اٹھوں اور محبت اور ہمدردی کی راہ سے اپنی چارپائی اس کو نہ دوں اور اپنے لئے فرش زمین پسند نہ کروں اگر میرا بھائی بیمار ہے اور کسی درد سے لاچار ہے تو میری حالت پر حیف ہے اگر مَیں اس کے مقابل پر امن سے سو رہوں اور اس کے لئے جہاں تک میرے بس میں ہے آرام رسانی کی تدبیر نہ کروں… کوئی سچا مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نرم نہ ہو…خادم القوم ہونا مخدوم بننے کی نشانی ہے اور غریبوں سے نرم ہو کر اور جھک کر بات کرنا مقبول الٰہی ہونے کی علامت ہے اور بدی کا نیکی کے ساتھ جواب دینا سعادت کے آثار ہیں اور غصہ کو کھا لینا اور تلخ بات کو پی جانا نہایت درجہ کی جوانمردی ہے۔ “
( شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395)

مزید پڑھیں

بنی نوع انسان سے ہمدردی اور خدمت انسانیت (حضرت مسیح موعودؑ کے پاک کلمات اور ارشادات  کے آئینہ میں) ( تقریر نمبر 1)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب پیغام صلح میں ہندوستان کی دو بڑی قوموں مسلمانوں اور ہندوؤں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :
”ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں اور دین و دنیا کی مشکلات میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں اور ایسی ہمدردی کریں کہ گویا ایک دوسرے کے اعضاء بن جائیں۔اے ہموطنو! وہ دین، دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو اور نہ وہ انسان ،انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو۔ “
( پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد 23صفحہ439)

مزید پڑھیں

حضرت مسیح موعودؑ  کا جادوئی روحانی انقلاب

حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری صاحب  مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کرکے بیعت کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ قرآن کریم کی جو عظمت اب میرے دل میں ہے، خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جو میرے دل میں اب ہے پہلے نہ تھی۔ یہ سب حضرت مرزا صاحب کی بدولت ہے‘‘
(اصحاب احمد جلد 14 صفحہ56)

مزید پڑھیں

یُفِیْضُ الۡمَالَ حَتّٰی لَا یَقۡبَلُہُ اَحَدٌ یعنی آنے والا مسیحؑ مال لُٹائے گا لیکن لوگ اُس مال کو قبول نہیں کریں گے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں:
”آپ کا فرضی مسیح اورمہدی تو ظاہر ہو کر اور تمام کافروں کو قتل کر کے اُن کا مال آپ لوگوں کو دے دے گا اور تمام نفسانی خواہشیں پوری کردے گا جیسا کہ آپ لوگوں کا عقیدہ ہے۔ لیکن مَیں تو اس لئے نہیں آیا کہ آپ لوگوں کو دنیا کے گندے مال میں مبتلا کروں اور آپ پر تمام ہواوہوس کے پورے کرنے کے دروازے کھول دوں بلکہ مَیں اس لئے آیا ہوں کہ موجودہ دنیا کے حظ سے بھی کچھ کم کرکے خداتعالیٰ کی طرف کھینچوں ۔ پس حقیقت میں میرے آنے سے آپ لوگوں کا بہت ہی حرج ہوا ہے۔ گویا تیرہ سو برس کے مال و متاع کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں یا یوں کہو کہ کروڑ ہا روپیہ کا نقصان ہوگیا۔ “
(تریاق القلوب ، رُوحانی خزائن جلد 15 صفحہ159)

مزید پڑھیں

”خادمِ نوعِ انسان“ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں:
”متکبّر دوسرے کا حقیقی ہمدرد نہیں ہوسکتا۔اپنی ہمدردی کو صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہ رکھو بلکہ ہرایک کے ساتھ کرو ۔ اگر ایک ہندو سے ہمدردی نہ کرو گے تو اسلام کے سچے وصایا اُسےکیسے پہنچاؤ گے؟ خدا سب کا ربّ ہے ۔ ہاں مسلمانوں کی خصوصیت سے ہمدردی کرو اور پھر متقی اور صالحین کی اس سے زیادہ خصوصیت سے ۔ مال اور دُنیا سے دل نہ لگاؤ۔ اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تجارت وغیرہ چھوڑ دو بلکہ دل بایار اور دست باکار رکھو ۔ خدا کاروبار سے نہیں روکتا بلکہ دنیا کو دین پر مقدم رکھنے سے روکتا ہے ۔ اس لیے تم دین کو مقدم رکھو۔“
(ملفوظات جلد 3 صفحہ592۔ایڈیشن 2003ء)

مزید پڑھیں

اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَر اَلۡکَوثَرۡ ۔ خَیرِ کَثِیر بذریعہ حضرت مسیح موعودؑ (تقریر نمبر5)

حضرت خلیفۃُ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے سورۃ الکوثر میں اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَر کے تحت فٹ نوٹ میں فرمایا:
” کَوۡثَر کے معنے ہر چیز کی کثرت کے ہیں نیز ایسے شخص کے جو بہت خیرات کرنے والا اور سخی ہو ۔ جیسا کہ حدیثوں میں مسیحؑ کی نسبت آتا ہے کہ وہ آئے گا اور مال لٹائے گا لیکن لوگ اسے قبول نہیں کریں گے۔ پس اس جگہ ایک آنے والے اُمتی کا ذکر ہے جو روحانی طور پر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ہوگا ۔ چنانچہ اس سورۃ میں بتایا ہے کہ کافر کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتر ہیں ۔ وہ کس طرح ابتر ہوسکتے ہیں جبکہ ان کی روحانی اولاد میں تو ایک ایسا شخص کھڑا ہونے والا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہو ئی تعلیم کے خزانے لٹائے گا۔ یہاں تک کہ لوگ اس کے دئے ہوئے مال کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ایسا مال جس کے لینے سے لوگ انکار کرتے ہیں علمی خزانے ہی ہوتے ہیں ورنہ ظاہری مال کے لحاظ سے تو اگر کسی کے پاس کروڑ پونڈ ہوتو اُسے اگر ایک پونڈ بھی دیا جائے تو وہ اسے قبول کرلیتا ہے۔“
( تفسیر صغیر صفحہ نمبر847 فٹ نوٹ )

مزید پڑھیں

ہمارے دل کی زباں ہیں جلسے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمۂِ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں۔ عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اَوہام پرست مخالفوں کا، نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالفِ قرآن روایتوں کو ملانے والے، اور خدا تعالیٰ اس اُمتِ وَسط کے لئے بَین بَین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا۔ وہی راہ جس کو قرآن لایا تھا، وہی راہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلائی تھی۔ وہی ہدایت جو ابتداء سے صدیق اور شہید اور صلحاء پاتے رہے۔ یہی ہو گا۔ ضرور یہی ہو گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔ مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 341- 342)

مزید پڑھیں

حضرت مسیح موعودؑ کے  آنے کی غرض ’’تا لوگ قوتِ یقین میں ترقی کریں‘‘ (تقریر نمبر 2)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ الم نشرح کی تفسیر میں ایک درس القرآن کے موقع پر فرماتے ہیں ۔
”قرآن کریم نے یقین کے مختلف مدارج بیان کئے ہیں۔ یوں تو اس کے ہزاروں مدارج ہیں مگر موٹے موٹے تین مدارج ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں جو خاص اصولی مضامین ہیں ان میں سے ایک یہ بھی مضمون ہے جو مراتب یقین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ پہلے صوفیاء کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں پہلے صوفیاء کی کتابوں میں بھی بے شک اس کا ذکر ملتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون میں جو جِدتیں پیدا کی ہیں وہ ان لوگوں کی تشریحات میں نہیں ہیں۔ بعض لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں تو امام غزالیؒ کی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں یا فلاں فلاں مضامین انہوں نے بھی بیان کئے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر اقبال نے کہہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کے مضامین صوفیاء کی کتابوں سے چرا لئے تھے حالانکہ اگر غور وفکر سے کام لیا جائے تو دونوں کے تقابل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے مضمون میں وہ باریکیاں پیدا نہیں کیں جو ایک ماہرِ فن پیدا کیا کرتا ہے اور نہ مضمون کی نوک پلک انہوں نے نکالی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس مضمون کو بھی لیا ہے ایک ماہرِ فن کے طور پر اس کی باریکیوں اور اس کے خدوخال پر پوری تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور کوئی پہلو بھی تشنۂ تحقیق رہنے نہیں دیا اور یہی ماہر کا کام ہوتا ہے کہ دوسروں سے نمایاں کام کر کے دکھا دیتا ہے۔ مثلاً تصویرکھینچنا بظاہر ایک عام بات ہے ہر شخص تصویرکھینچ سکتا ہے میں بھی اگر پنسل لے کر کوئی تصویر بنانا چاہوں تو اچھی یا بُری جیسی بھی بن سکے کچھ نہ کچھ شکل بنا دوں گا مگر میری بنائی ہوئی تصویر اور ایک ماہرِ فن کی بنائی ہوئی تصویر میں کیا فرق ہوگا یہی ہوگا کہ ماہرِفن اس کی نوکیں پلکیں خوب درست کرے گا اور میں صرف بے ڈھنگی سی لکیریں کھینچ دینے پر اکتفا کر دوں گا۔ پس کسی مضمون کا خالی بیان کر دینا اَور بات ہوتی ہےاور اس کی نوک پلک درست کر کے اسے بیان کرنا اور بات ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گو بعض جگہ وہی مضامین لئے ہیں جو پُرانے صوفیاء بیان کرتے چلے آئے تھے مگر آپ کے بیان کردہ مضامین اور پہلے صوفیاء کے بیان کردہ مضامین میں وہی فرق ہے جو ایک اناڑی اور ماہر مصور کی بنائی ہوئی تصاویر میں ہوتاہے۔ انہوں نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جیسے ڈرائنگ کا ایک طالب علم کھینچتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جس طرح ایک ماہرِفن تصویر کھینچ کر اپنے کمالات کا دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرتا ہے اور پھر ہر بات پر قرآن کریم سے شاہد پیش کر کے بتایا ہے کہ اس مضمون کا بتانے والا قرآن کریم ہے۔“
(الفضل قادیان 15؍ اپریل 1946ء)

مزید پڑھیں