لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوۡمٌ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
” خدا کی کرسی کے اندر تمام زمین و آسمان سمائے ہوئے ہیں اور وہ اُن سب کو اٹھائے ہوئے ہے۔ اُن کے اُٹھانے سے وہ تھکتا نہیں۔ “
(چشمۂ معرفت ، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 118 حاشیہ)

مزید پڑھیں

قُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْداً (خلاصہ خطبہ جمعہ حضورِ انورایدہ اللہ فرمودہ 21؍ جون 2013ء ) ( تقریر نمبر2)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہئے۔ سلامتی اسی میں ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا نہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنادیں.گی اور طبیعت میں کسل اور لاپروائی پیدا ہوکرہلاک ہو جائے گا ۔ تم اپنے زیرِ نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لئے دقائقِ تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 442 ایڈیشن 2003ء)

مزید پڑھیں

قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام قولِ سدید کی تشریح میں فرماتے ہیںکہ
’’وہ بات منہ پر لاؤ جو بالکل راست اور نہایت معقولیت میں ہو اور لغو اور فضول اور جھوٹ کا اس میں سرِمُو دخل نہ ہو۔‘‘
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ209-210حاشیہ نمبر11)

مزید پڑھیں

ہستی باری تعالیٰ از روئے قرآنِ کریم ( تقریر نمبر 2)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس زندہ خدا کا پیغام اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کی اتباع میں دنیا کو پہنچانے والے ہوں اور دنیا کو یہ احساس دلانے والے ہوں کہ زندہ خدا ہے، موجود ہے، اب بھی سنتا ہے، نشان بھی دکھاتا ہے۔ اس کی طرف لَوٹو۔ اس کی طرف آؤ۔ اور ہم خود بھی اس خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنے والے ہوں اور اس تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔ اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اس کی صفات کا صحیح ادراک حاصل کرنے والے ہوں۔ اس کے انعامات کے وارث ہوں۔ ہماری نسلیں بھی اور ہم بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے شرک سے ہر طرح محفوظ رہیں۔‘‘
( خطبہ جمعہ 18 اپریل2014ء)

مزید پڑھیں

قرآنِ  کریم ، آنحضورؐ کی  زندگی کا مکمل ضابطہ حیات ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خاص فضل سے روحانی کمالات، انعامات وبرکات، اسرار ومعارف اور محسن.باری.تعالیٰ کے خزائن عطا فرمائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن جیسی رحمت شفاء، نور، امام کتاب لے کر آئے اور قرآن کا نزول رحمانی صفت ہی کا اقتضاء تھا جیسے فرمایا اَلرَّحۡمٰنُ۔ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ قرآن کا نزول چونکہ اس صفت کے نیچے تھا ۔ آپؐ جب معلّمِ القرآن ہوئے تو اسی صفت کے مظہر بن کر باوجود اس کے کہ اُن سے دکھ اٹھائے مگر دُعا ، توجہ ، عقدِ ہمت اور تدبیر کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ آخر آپؐ کامیاب ہوگئے۔ پھر جن لوگوں نے آپؐ کی سچی اور کامل اتباع کی ان کو اعلیٰ درجہ کی جزا ملی اور ان کی تعریف ہوئی ۔ اس پہلو سے آپؐ کا نام احمدؐ ٹھہرا کیونکہ دوسرے کی تعریف جب کرتا ہے جب فائدہ دیتا ہے۔ چونکہ آپؐ نے عظیم الشان فائدہ دنیا کو پہنچایا ،اس لیے آپؐ کی اسی قدر تعریف بھی ہوئی۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 112)

مزید پڑھیں

مجھ پر سورۃ الکوثر نازل ہوئی  (حضرت محمدؐ ) (تقریر نمبر 6)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
” (کوثر میں) وہ تمام امور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ سب کے سب کوثر کا حصّہ ہیں اور اِس لفظ میں یہ دعویٰ ہے کہ وہ تمام کمالات جو نبوت کا حصّہ ہیں یا نبوت سے اِن کا گہرا تعلق ہے۔ اُن سب میں آپؐ کو کوثر ملی ۔“
( تفسیر کبیر جلد 10 صفحہ 248)

مزید پڑھیں

اَلْکَوْثَرْ۔ خَیْرِ کَثَیْر اَیْ اَلْقُرْآن (اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ) (تقریر نمبر4)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
”میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں۔ سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے… خدا نےمجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں یہی بات سچ ہے …قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو ……تمہاری تمام کوشش اسی میں مصروف ہونی چاہئے کہ تم خدا کے تمام احکام کے پابند ہو جاؤ اور یقین میں ترقی چاہو نجات کے لئے نہ الہام نمائی کے لئے۔“۔۔۔۔
۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26 – 28 )

مزید پڑھیں

الکوثر، خیر کثیر کے معانی (حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات کی روشنی میں) (تقریر نمبر3)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”غرض موسیٰ علیہ السلام کو کتاب ملی جس کے معنے حکم ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو احکام دئےجن میں سے آپ کو کچھ احکام تو لفظاً لفظاً یاد رہ گئے اور باقی کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے الفاظ میں بیان کردیا اور وہ تورات میں درج ہوگئے۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کلام اللہ دیا گیا جس کے الفاظ اوّل سے آخر تک وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں۔ گویا سورۃ فاتحہ کی ‘ب’ سے لیکر سورۃ النّاس کی ‘س’ تک نہ کوئی لفظ ایسا ہے اور نہ کوئی زیر اور زبر جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے شامل کردیا ہو۔ بلکہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہیں۔ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کتنی بڑی فضیلت ہے کوئی عیسائی یا یہودی تورات کے متعلق قسم نہیں کھاسکتا کہ یہ وہی کتاب ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ کوئی عیسائی یا یہودی بھلا یہ قسم کھا کر کہہ تو دے کہ میرے بیوی بچوں کو خداتعالیٰ تباہ کرے اور اگلے جہان میں بھی اُن پر لعنت ہو اگر تورات کے الفاظ وہی نہ ہوں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اُترے تھے۔ کوئی عیسائی یا یہودی ایسی قسم نہیں کھاسکتا ۔ لیکن ہم قرآن کریم کے متعلق یہ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں آج بھی آئندہ بھی۔ کہ اگر یہ وہی الفاظ نہ ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے تھے تو ہمارے بیوی بچوں کو خداتعالیٰ تباہ کرے اور اگلے جہان میں بھی اُن پر لعنت ہو ۔ یہ کتنی بڑی فضیلت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ پر حاصل ہوئی۔“

مزید پڑھیں

اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ (حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی تفسیر کے آئینہ میں) (تقریر نمبر 2)

حضرت خلیفۃُ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں کہ
”یہ سورۃ مکّی ہے… یہ ایک مختصر سی سورۃ ہے اور اس مختصر سی سورۂ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان پیشگوئی بیان فرمائی ہے۔ جو جامع ہے پھر اس کے پورا ہونے پر شکریہ میں مخلوقِ الٰہی کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے … پس یہ ایک سورۂ شریفہ ہے ۔ بہت ہی مختصر ۔ لفظ اتنے کم کہ سننے والے کو کوئی ملال طوالت کا نہیں یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی ایک دن میں ہی اُسے یاد کرلے۔ اگر ان کے مطالب اور معانی دیکھو تو حیرت انگیز۔“
(حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ نمبر498)

مزید پڑھیں

مسلمانوں پہ تب اِدبار آیا  کہ جب تعلیمِقرآں کو بُھلایا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو! انہوں نے جب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے،پورے ہو گئے۔“
(ملفوظات جلد اول صفحہ409 )

مزید پڑھیں