خطبات امام، ہمارے لئے ایک چراغ ہیں

تقاریر خلفاؑ احمدیت

جب بھی وہ عہد کا حسیں بولے
عرش بولے، کبھی زمیں بولے
جب وہ بولے تو ساتھ ساتھ اس کے
ذرّہ ذرّہ بصَد یقیں بولے

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مومنوں پر رسول کے نزول کا ذکر بطور احسان  کرتے ہوئے فرماتا ہے:

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ           (آل عمران:165)

ىقىناً اللہ نے مومنوں پر احسان کىا جب اس نے ان کے اندر انہى مىں سے اىک رسول مبعوث کىا وہ ان پر اس کى آىات کى تلاوت کرتا ہے اور انہىں پاک کرتا ہے اور انہىں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔

اور پھر اللہ تعالیٰ ، قرآن کریم  میں اپنے اور رسول کے احکامات کی بابت نصیحت کرتا ہوا فرماتا ہےکہ

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ         (الانفال: 25)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ اور رسول کى آواز پر لبىک کہا کرو جب وہ تمہىں بلائے تاکہ وہ تمہىں زندہ کرے۔

میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر
میں وہ ہوں نور خدا جس سے ہوا دن آشکار

آج میری تقریر کا عنوان ہے : خطبات امام، ہمارے لئے ایک چراغ ہیں

سامعین/ سامعات !   اللہ تعالی نے انسان کی زندگی کو بچانے اور اِس کے نشو و نما کے لئے دو قسم کے پانی آسمان سے اُتارے ہیں اُن میں سے ایک مادی پانی ہے جو بادلوں سے بارش کے طور پر نازل ہوتا اور زمینی پانی کے ساتھ مل کر نسلِ انسانی کی بقا کا کام دیتا ہے اور یوں آبِ حیات کہلاتا ہے۔ انسان کی دینی اور روحانی زندگیوں کی بقا کے لئے ایک آبِ حیات انبیاء اور رسل کے طور پر آسمانوں سے اترتا ہے اور اِسی احسانِ عظیم کا ذکر اللہ تبارک و تعالی نے سورت آلِ عمران کی اُ س آیت کریمہ میں کیا ہے جس کی تلاوت ابھی مَیں نے اپنی تقریر کے آغاز پر کی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کے رسول ان مومنوں پر اللہ کى آیات کى تلاوت کرتا ہے اور انہىں پاک کرتا ہے اور انہىں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے ۔

اِس زمانے کے روحانی مُخبر حضرت مسیح موعود ؑ  کے ذریعہ جو روحانی پانی اللہ تعالی نے اُتارا ہے اُس کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں:

’’میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے۔ جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصّہ لے گا۔مگر جوشخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتاہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا۔اس زمانہ کا حِصنِ حصین مَیں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزّاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گامگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ34)

سامعین/ سامعات ! پھر ایک مقام پر آپؑ اس پانی کی روحانی تاثیر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جو شخص میرے ہاتھ سے جام پیئے گا جو مجھے دیا گیا وہ ہرگز نہیں مرے گا۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد3 صفحہ104)

اِن روحانی کلمات اور حکمت کی باتوں کے فیضان کو امت میں لمبے عرصہ تک ممتد کرنے کے لئے ان ایمان داروں اور عمل صالح کرنے والے لوگوں میں خلافت کا سلسلہ جاری فرماتا ہے۔ ہمارے اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے دینِ  اسلام کے احیاء اور شریعت اسلامیہ کے قیام کی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جماعت میں اپنی قدرت ثانیہ کا ظہور فرماتے ہوئے سلسلہ خلافت کو قائم فرمایا۔ جس کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلّی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘      

۔(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ353)

حضرت مصلح موعودؓ روحانی پانی سے فیض یاب ہو کر مومنوں کو جو ترقیات نصیب ہوتی ہیں اُن  کا ذکر کرتے ہوئے  فرماتے ہیں:

’’ملائکہ سے فیوض حاصل کرنے کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ خلفاء سے مخلصانہ تعلق قائم رکھا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے……تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نئے دل ملیں گے جن میں سکینت کا نزول ہوگا اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ ان دلوں کو اٹھائے ہوئے ہوں گے…… تعلق پیدا کرنے کے نتیجہ میں تم میں ایک تغیر عظیم واقع ہو جائے گا، تمہاری ہمتیں بلند ہو جائیں گی، تمہارے ایمان اور یقین میں اضافہ ہو جائے گا ملائکہ تمہاری تائید کے لئے کھڑے ہو جائیں گے اور تمہارے دلوں میں استقامت اور قربانی کی روح پھونکتے رہیں گے۔ پس سچے خلفاء سے تعلق رکھنا ملائکہ سے تعلق پیدا کر دیتا ہے اور انسان کو انوارِ الہیہ کا مَہبط بنا دیتا ہے۔‘‘                                                                                                          ۔۔۔۔۔(خلافت علی منہاج النبوۃ جلد3 صفحہ392)

سامعین/ سامعات !  یہ حکمت کے موتی ہمارے آباؤاجداد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبانِ مبارک سے درس و تدریس ،خطبات و تقاریر اور محافلِ عرفان کے ذریعہ براہِ راست سنتے رہے ۔ پھر جب  طباعت کے ذریعہ یہ کلمات و ملفوظات  کاغذوں کی زینت بننے لگے  تو ہم اِنہیں پڑھ کر اپنی روحانی آسودگی کے سامان کرتے رہے ۔ پیشگوئیوں کے مطابق جب زمانے نے اور ترقی کی اور نت نئی ایجادات نے زمانے کی سائنسی لگام سمبھالی تو پہلے یہ خلفاء کے خطبات اور ملفوظات فونوگرام پھر آڈیو کیسٹس پھر ویڈیو کیسٹس  اور اب سیٹ لائٹس کے ذریعہ یہ روحانی دودھ ڈِش نما برتن میں آسمان سے اُترتا اور ہم اپنی صحت کی بقا کے لئے اِسے استعمال کرتے ہیں اِسی پر بس نہیں بلکہ برق رفتار دنیا میں اب تو موبائل فونز اور دیگر  Gadget’s کے ذریعہ آنًا فانًا دنیا کے کونے کونے تک پہنچ کر ہماری روحانی آسودگی کے سامان پیدا کرنے لگا ہے اور یوں پرانے وقتوں کی بیان شدہ اِس زمانے کے متعلق علامات نہ صرف پوری ہوئیں  بلکہ مامورِ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ مبارک خواہش اور آرزو دو اور دو چار کی طرح پوری ہوتے دیکھ کر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن  بکثرت پڑھتے اور اللہ ربُّ العالمین کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ آپؑ فرماتے ہیں ۔

’’میری بڑی آرزو ہے کہ ایسامکان ہو کہ چاروں طرف ہمارے احباب کے گھر ہوں اور درمیان میں میرا گھر ہو اور ہر ایک گھر میں میری ایک کھڑکی ہو کہ ہر ایک سے ہر ایک وقت واسطہ و رابطہ رہے‘‘

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹیؓ صفحہ 24)

حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے جب صدر خدام الاحمدیہ تھے، خلیفہ ٔ وقت کے خطبات کے بارےمیں فرمایا:

’’تاریکی کی گھڑیوں میں ان خطبات نے میری ڈھارس باندھی تھی۔ اگر آپ کے دل میں کبھی مایوسی کے خیالات پیدا ہوں۔ تاریک بادل آپ کو آگھیریں یا کبھی آپ کے دل میں اگر یہ خیال پیدا ہو کہ اتنا عظیم الشان کام ہم کیسے سر انجام دے سکتے ہیں۔ اتنا بڑا بوجھ ہمارے کمزور کندھے کس طرح سہاریں گے تو آپ ان خطبات کی طرف رجوع کریں…آپ نئی ہمت اور پختہ عزم لے کر اپنے کام کے لیےکھڑے ہوں گے اور یہ یقین ہر وقت آپ کے ساتھ رہے گا کہ دور کا راستہ پُر خار ضرور ہے مگر راہبر اپنے فن کا ماہر ہے اور بے شک چاروں طرف سے شیطان تیروں کی بوچھاڑ کررہا ہے مگراَلْاِمَامُ جُنّةٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہ‘‘                                                                                                                                                                             ۔۔(مشعل راہ جلد اول صفحہ ب۔ ج)

 سامعین/ سامعات!  ڈِش کے ذریعہ دودھ پینے کی تشبیہ کا ذکر تو مَیں اوپر کر آیا/ آئی ہوں ۔اب ٹی وی کی شکل و صورت کو دیکھ کر ذرا حضورؑ کی اِس آرزو کو ذہنوں میں لائیں تو کیا حضورؑ کے گھر کی کھڑکی بصورت ٹی وی  ( جو بظاہر ٹی وی شکل کی ہوتی ہے ) ہر احمدی کے گھر میں نہیں کھلتی جس میں خلیفۃ المسیح ہر جمعہ کو نمو دار ہو کر  آسمانی کلمات ہمیں سُناتے ہیں جو ہمارے لئے روح افزا ہوتے ہیں۔

لہذا اپنی اور اپنی اولاد کی روحانی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کی خواہش کے مطابق جب تک خدا تعالی  کے مقرر کردہ مبارک وجود سے ایک ذاتی واسطہ اور رابطہ پیدا کرنا اور اِس چراغ سے ہر جمعہ روشنی لینا ضروری ہے اور اِس زندگی بخش جام کو پینا  اور سلامتی کے پیغام کو سننا لازم ہے ۔ کیا ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آغازِ خطبہ پر حضور ایدہ اللہ تعالی کی طرف سے  منبر پر نمو دار ہو کر السلام علیکم و رحمۃ اللہ کے الفاظ میں سلامتی کی دعا لیتے اور خلیفۃ المسیح کو سلامتی کی دعا دیتے ہیں ۔  خلفائے احمدیت نے اس بات  پر بار بار زور دیا کہ خلیفۂ وقت کی آواز کو براہ راست سنیں۔ روحانی ترقی کے لئے خلافت کی آواز کو ہر ایک کا براہ راست سننا ضروری ہے ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:

’’میرا تجربہ ہے کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے جو بات کوئی دوسرا پہنچاتا ہے اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا براہ راست خلیفۂ وقت سے کوئی بات سنی جائے۔ میرا اپنا زندگی کا لمبا عرصہ دوسرے خلفاء کے تابع ان کی ہدایت کے مطابق چلنے کی کوشش میں صرف ہوا ہے اور میں جانتاہوں کہ کوئی پیغام پہنچائے فلاں خطبہ میں خلیفہ نے یہ بات کی تھی اور خطبہ میں خودحاضر ہو کر وہ بات سننا ان دونوں باتوں میں زمین۔وآسمان کا فرق ہے۔‘‘                                                                                                                                ۔۔۔(خطبہ جمعہ 8جنوری 1993ء خطبات طاہر جلد 12 صفحہ20)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’اس طرف بہت توجہ کریں، اپنے گھروں کو اس انعام سے فائدہ اٹھانے والا بنائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری تربیت کے لئے ہمارے علمی اور روحانی اضافے کے لئے ہمیں دیا ہے تاکہ ہماری نسلیں احمدیت پر قائم رہنے والی ہوں۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو ایم ٹی اے سے جوڑیں۔ اب خطبات کے علاوہ اور بھی بہت سے لائیو پروگرام آرہے ہیں جوجہاں دینی اور روحانی ترقی کا باعث ہیں وہاں علمی ترقی کا بھی باعث ہیں۔ جماعت اس پر لاکھوں ڈالر ہر سال خرچ کرتی ہے اس لئے کہ جماعت کے افراد کی تربیت ہو۔ اگر افراد جماعت اس سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو اپنے آپ کو محروم کریں گے…..ایم ٹی اے کی ایک اور برکت بھی ہے کہ یہ جماعت کو خلافت کی برکات سے جوڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پس اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔‘‘              ۔۔۔۔(خطبہ جمعہ 18 اکتوبر 2013 ء)

سامعین/ سامعات! ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے  اِس مضمون کو کیا ہی دلکش انداز میں ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا ہے

”ایک دفعہ ایک بادشاہ محمود غزنوی کا ایک خاص جرنیل ایاز  جو انتہائی وفادار تھا ۔ ایک دفعہ ایک معرکے سے واپسی پر جب بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ جا رہا تھا تو اس نے ایک جگہ پڑاؤ کے بعد دیکھا کہ ایاز اپنے دستے کے ساتھ غائب ہے۔ تو اس نے باقی جرنیلوں سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے تو ارد گرد کے جو دوسرے لوگ خوشامد پسند تھے اور ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اس کو بادشاہ کی نظروں سے گرایا جائے اور ایاز کے عیب تلاش کرتے رہتے تھے تو انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا کہ بادشاہ کو اس سے بد ظن کریں۔ کچھ دیر بعد وہ کمانڈر اپنے دستے کے ساتھ واپس آرہا ہے اور اس کے ساتھ ایک قیدی بھی ہے۔ تو بادشاہ نے پوچھا کہ تم کہاں گئے تھے۔ اس نے بتایا کہ بادشاہ سلامت! مَیں نے دیکھا کہ آپ کی نظر باربار سامنے والے پہاڑ کی طرف اُٹھ رہی تھی تو مجھے خیال آیا ضرور کوئی بات ہو گی مجھے چیک کر لینا چاہئے، جائزہ لینا چاہئے، تو جب مَیں گیا تو مَیں نے دیکھا کہ یہ شخص جس کو مَیں قیدی بنا کر لایا ہوں ایک پتھر کی اوٹ میں چھپا بیٹھا تھا اور اس کے ہاتھ میں تیر کمان تھی تاکہ جب بادشاہ  کاوہاں سے گزر ہو تو وہ تیر کا وار آپ پر چلائے۔

تو اس واقعہ سے ایک سبق بد ظنی کے علاوہ بھی ملتا ہے کہ ایاز ہر وقت بادشاہ پر نظر رکھتا تھا۔ ہر اشارے کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پس یہ بھی ضروری ہے کہ جس سے بیعت اور محبت کا دعویٰ ہے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے اور اس کے ہر اشارے اور حکم پر عمل کرنے کے لئے ہر احمدی کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر حکم کو ماننے کے لئے بلکہ ہر اشارے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26 مئی 2006ء)

پھر ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس مضمون کو جماعت کے سامنے یوں بیان فرمایا:

’’ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہےچاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو…مختلف ممالک سے احمدیوں کے،جو وہاں کے مقامی احمدی ہیں، خطوط بڑی کثرت سے آنے لگ گئے ہیں کہ خطبات نے ہم پر مثبت اثر کرنا شروع کر دیا ہے اور بعض اوقات تربیتی خطبات پریوں لگتا ہے کہ جیسے خاص طور پر ہمارے حالات دیکھ کر ہمارے لئے دئیے جار ہے ہیں۔ بلکہ شادی بیاہ کی رسوم پر جب میں نے خطبہ دیا تھا تو اس وقت بھی خط آئے کہ ان رسوم نے ہمیں بھی جکڑ اہوا ہے اور خطبہ نے ہمارے لئے بہت سا تربیتی سامان مہیا فرمایا ہے۔ تو جو احمدی اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ وقت کی آواز کو سننا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے،اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے وہ نہ صرف شوق سے خطبات سنتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ان کا مخاطب سمجھتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23اپریل 2010ء)

سامعین/ سامعات! خلیفہ وقت کا خطبہ جمعہ دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں کو امت واحدہ بنانے کا سامان کرتا اور احباب کو روحانی وجود بننے میں مدد کرتا ہے۔ اس حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’آپ اپنی نسلوں کو خطبات باقاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں کیونکہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دور میں دیئے جارہے ہیں یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اورساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہ راست سنتی اورفائدہ اٹھاتی اورایک قوم بن رہی ہیں ….اگر خلیفہ وقت کی نصیحتوں کو براہ راست سنیں گے تو سب کی تربیت ایک رنگ میں ہو گی ….وہ ایسے روحانی وجود بنیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پا رہے ہوں گے اور قرآن کے نور سے حصہ لےرہےہونگے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 31مئی1991ء)

خلفاء کو اللہ تعالیٰ خود علوم اور ان کی تفسیر سمجھاتا ہے اور خلفاء کی نظر اپنے وقت کی تمام عالمی ضروریات پر ہوتی ہے۔ وہ خدائی نور کی فراست سے دنیا کی رہ نمائی اپنے خطبات کے ذریعہ فرماتے ہیں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’خدا تعالیٰ کا خلافت سے ایک تعلق ہے اور علوم کی روح سے اللہ تعالیٰ خلفاء کو آگاہ کرتا ہے اور جماعت کی زمانے کے لحاظ سے ضروریات سے خلفاء کو متنبہ کرتا ہے۔ خلفاء کی نظر ساری عالمی ضروریات پر ہوتی ہے اور جن علوم کی تفسیر کی ضرورت پڑے جیسی روشنی خدا تعالیٰ خود اپنے خلفاء کو عطا فرماتا ہے ویسی ایک علم میں خواہ کسی مقام کا رکھنے والا عالم ہو اس کو اپنے کسبی طور پہ نصیب نہیں ہو سکتی۔ یہ وھبت ہے، اللہ تعالیٰ کی عطا ہے … اللہ کواپنے دین کی ضرورتوں کا بہترین علم ہے اور جن کے سپرد وہ کام کرتا ہے ان پر وہ ضرورتیں روشن فرماتا ہے۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍ فروری 1988ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 7صفحہ 109تا110)

معزز بہنو و بھائیو! اللہ تعالیٰ اپنے خلفاء کو خود سمجھاتا ہے کہ کس خوبی کو کس طرح پھر سے زندہ کرنا ہے۔ خلفاء اپنے خطبات میں وہی انداز اختیار فرماتے ہیں جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نےفرمایا:

’’وقت کے لحاظ سے سچائی ہرقسم کے نئے ابتلاؤں  میں سے گزرتی ہے۔ زمانے کے اثرات ہوتے ہیں اُسی خوبی پر جو پہلے کئی ابتلاؤں سے گزر کے،بچ کے یہاں تک پہنچی ہوتی ہے یا قریب المرگ ہو جاتی ہے اُس وقت۔ اُس وقت خدا جن لوگوں کے سپرد کام کرتا ہے پھر اُن کو سمجھاتا ہے کہ اس خوبی کو زندہ کرنے کے لیے زیادہ ذہن نشین کرنے کے لیے نئے زمانے کی ضرورتوں کے پیش نظر،یہ یہ رنگ اختیار کیے جائیں،اس طرح یہ بات پیش کی جائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍فروری 1988ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 7صفحہ 114)

خلیفہ وقت اپنے خطبات جمعہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچاتا ہے۔ ان کی نصیحت کسی بھی دوسرے واعظ سے ہزار ہا گنا زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح واضح فرمایا ہے:

’’خلیفہ وقت کو جو باتیں خدا تعالیٰ دینی کاموں سے متعلق سمجھاتا ہے ان کو کہنے کے انداز بھی عطا کرتا ہے اوران باتوں میں جیسی گہری سچائی ہوتی ہے ویسی دوسرے کی باتوں میں جگہ جگہ کہیں کہیں توہوسکتی ہے مگر بالعموم ساری باتوں میں ویسی سچائی نہیں آسکتی اورویسا اثرنہیں پیدا ہوسکتا۔ …

پس ہر خلیفہ کے وقت میں جو اس زمانے کے حالات ہیں ان کے متعلق جوخلیفہ ٔوقت کی نصیحت ہے، وہ لازماً دوسری نصیحتوں سے زیادہ مؤثرہوگی۔ اس تعلق کی بناء پر بھی اور اس وجہ سے بھی کہ خداتعالیٰ نے جو ذمہ داری ا س کے سپرد کی ہوتی ہے خود اس کے نتیجہ میں اس کو روشنی عطاکرتاہے۔“

 (خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍نومبر 1991ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 10صفحہ 893تا 894)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے معرفت سے پُر الفاظ دلوں پر براہِ راست اثر کرتے ہیں  حضور ایک موقع یوں بتاتے ہیں:

  ’’ایم ٹی اے پر سننے والوں کی میں نے بات کی ہے تو ا ُن کی طرف سے بھی مجھے اظہار جذبات کے خطوط مل رہے ہیں بلکہ بعض بچوں کے والدین کے تاثرات بھی مل رہے ہیں کہ ہمارے بچوں نے، اطفال نے آپ کا خطاب سنا تو ان دس گیارہ سال کے بچوں کے چہروں پر شرمندگی کے آثار تھے۔ بلکہ ایک بچے کی ماں نے مجھے بتایا کہ میرا بچہ جب خطاب سن رہا تھا تو اس نے منہ کے آگے(کُشن) Cushion رکھ لیا کہ میں بعض وہ باتیں کرتا ہوں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ میرے متعلق کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ٹی وی پر مجھے دیکھ دیکھ کر یہ باتیں کر رہے ہیں، خطاب کر رہے ہیں تو میں نے منہ چھپا لیا کہ نظرنہ۔آؤں۔

پس یہ سعید فطرت ہے، یہ وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ نے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے بچوں میں بھی پیدا کی ہوئی ہے کہ نصیحتوں پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے بلکہ شرمندہ ہو کر اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ بعضوں نے اپنے موبائل فون بند کر دیئے ہیں۔ سکول میں بیٹھ کر بجائے پڑھائی پر توجہ دینے کے بعض بچے اس سوچ میں رہتے تھے کہ ابھی بریک ہوئی یا ابھی چھٹی ہو گی تو پھر اپنے موبائل پر کوئی گیم کھیلیں گے یا اور اس قسم کی فضولیات میں پڑ جائیں گے جو فونوں پر آجکل مہیا ہوتی ہیں۔ اب میری باتیں سنی ہیں تو انہوں نے کہا یہ سب فضولیات ہیں، ہم اب اس کو استعمال نہیں کریں گے،ان کھیلوں کو نہیں کھیلیں گے۔ یہ کھیلیں ایسی ہیں جو صحت نہیں بناتیں، جو دماغی ورزش بھی نہیں ہے بلکہ ایک نشہ چڑھا کر مستقل انہی چیزوں میں مصروف رکھتی ہیں، ایک پاگل پن (یا انگلش میں جسے craze کہتے ہیں) وہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہم صرف اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے۔ جو ہوشمند اور بڑے ہیں ان کوتو خود اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور مستقل مزاجی سے ان جائزوں کی ضرورت ہے۔ ان جائزوں کو لیتے چلے جانا ہے اور اسی طرح والدین کو مستقل اپنے بچوں کو یادہانی کروانے کی ضرورت ہے کہ جب ایک اچھی بات عادت تم نے اپنے اندر پیدا کرلی ہے تو پھر اسے مستقل اپنی زندگی کا حصہ بناؤ۔ ماحول سے متاثر نہ ہو جاؤ۔‘‘                                                                                                          ۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 23 ستمبر 2011 ء)

خلیفہ وقت کے زندگی بخش کلمات اپنے تو اپنے غیروں پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:

’’پھر اب اسی دورے میں آخن (Aachen) کی اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر اور ہناؤ (Hanau) کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر مقامی لوگوں نے جو مختلف طبقات کے تھے، سیاستدان بھی تھے، کاروباری بھی تھے، ٹیچر بھی تھے اور دوسرے پڑھے ہوئے لوگ بھی تھے۔ مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ایک نے کہا کہ میری بہت سے احمدیوں سے واقفیت ہے اور احمدیت کے بارے میں مَیں  سمجھتی تھی کہ بہت سمجھتی ہوں اور مجھے اس واقفیت کی وجہ سے بہت کچھ پتا ہے لیکن کہنے والے کو انہوں نے کہا کہ جو تمہارے خلیفہ کی باتیں سن کر مجھ پر اثر ہؤا ہے وہ پہلے نہیں ہوا۔ مجھے اسلام کے متعلق حقیقت اب صحیح طور پر پتا چلی ہے جو دل میں اتری ہے۔ تو یہ فضل ہیں اللہ تعالیٰ کے جو خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ میَں تو ایک عاجز انسان ہوں۔ اپنی حالت کا مجھے علم ہے میری کوئی خوبی نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خلافت سے تائید کا وعدہ فرمایا ہے، نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اور خدا تعالیٰ یقینا سچےّ وعدوں والا ہے وہ ہمیشہ خلافت کی تائید و نصرت فرماتا رہا ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی فرماتا رہے گا۔‘‘                                                                                                                 ۔۔۔۔۔۔(خطبہ جمعہ 29 مئی 2015)

سامعین/ سامعات! ایک اور جگہ پر اس طرح نصیحت فرمائی ہے فرمایا:

’’سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ ہر جمعہ کو نشر ہو نے والا خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنیں اور دیگر ایسے پروگرامز بھی دیکھیں جن میں میری شمو لیت ہو تی ہے۔ ان پروگراموں کو دیکھنا ان شاء اللہ آپ لو گو ں کے لئے فا ئدہ مند ثابت ہو گا‘‘                                                                                                               ۔۔۔(خطاب حضور انور مجلس شوریٰ یو کے 2013ء)

پھر ایک موقع پر فرمایا:

”خلافت سے تعلق پیدا کرنے اور روحانی ترقیات کے لئے سب سے پہلا زینہ ہر احمدی کے لئے خلیفہ وقت کی آواز کو براہِ راست سننا ہے۔ اس کے لبوں اور زبان سے کب کیا نکلتا ہے۔ اس کی جستجو میں ہمیشہ رہے۔ قرآن کریم میں مومنین کی جماعت کا شعار سمعنا و اطعنا کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ نیکی کی باتوں کو توجہ سے سنتے، سمجھتے اور یاد رکھتے ہیں اور پھر ان باتوں پر دل وجان سے عمل بھی کرتے ہیں۔ جو شخص سنے گا نہیں وہ عمل کیا کرے گا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللَّہِ وَ السَمْعِ وَالطَّعَۃِ۔(ترمذی، کتاب الایمان، کتاب الاخذ بالسنۃ)

یعنی مَیں تمہیں اللہ کا تقوی اختیار کرنے نیز سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی پتہ چلتا ہے کہ حصول تقویٰ کے دو ہی بڑے زینے ہیں کان کھول کر ہدایات کو سننا اور ان پر عمل کرنا۔“

اس کے بر خلاف خلیفہ وقت کے ارشادات کو نہ سننا اور توجہ نہ دینا اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو خدا کے فضلوں اور روحانی ترقی سے محروم کرنے کا سبب بنتا ہے۔اس کے بارے میں ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’اگر خلیفہ وقت کی باتوں پر کان نہیں دھریں گے تو آہستہ آہستہ نہ صرف اپنے آپکو خدا تعالیٰ کے فضلوں سے دور کر رہے ہوں گے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی دین سے دور کرتے چلے جائیں گے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد ہشتم صفحہ191-192)

5 ستمبر 2023ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے جرمنی میں مسجد ناصر کی افتتاحی  تقریب سے خطاب فرمایا۔ اس سے متاثر ہوکر ایک مہمان اُوْوے (Uwe) نے کہا کہ خلیفہ ہر ہفتے خطبات کے ذریعہ سے نصائح فرماتے ہیں۔ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کا ایک امام ہے جو آپ کو بھٹکنے سے محفوظ رکھتا ہے اور آپ کی ہر ہفتے رہنمائی فرماتا ہے۔ ہم امام نہ ہونے کی وجہ سے منتشر ہیں۔

(روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 4 اکتوبر 2023ء صفحہ 8)

سامعین/ سامعات! درحقیقت ایک حقیقی احمدی کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے ہر فرمودہ کو توجہ سے سنے کیونکہ یہ مقدس آواز ایک سچے مومن کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور اس کی برکات مضمر ہوتی ہیں۔ چنانچہ خلیفہ وقت اللہ تعالیٰ کے خاص اذن سے بولتا ہے۔ معارف اس کی مقدس زبان پر جاری کئے جاتے ہیں جن سے کہ یہ دنیا محروم ہوتی ہے اور ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتے۔ وہ عین ضرورت اور منشاء الٰہی کے مطابق مومنوں کو دعوت عمل دیتا ہے اور اس طرح وہ سانچہ ایک خلیفہ ہی بنا سکتا ہے جس میں پھر صلاحیت کے عمل ڈھل سکتے ہیں۔ ہمہ وجوہ روحانی ترقیات کی راہیں خلیفہ وقت کی ہدایات کی بدولت ہی صحیح طور پر طے کی جا سکتی ہیں۔ لہذا خلیفہ وقت کے پُر معارف خطبات، خطابات، کلاسز اور پیغامات کو باقاعدگی اور توجہ سے خود سننا، بچوں کو سنانا، اہل۔وعیال کو سنانا اور دیگر دوستوں، رشتہ داروں اور حلقہ احباب کو تحریک کرنا ہر ایک احمدی مرد و عورت کا فرض ہے۔اس طرح کرنے سے ہی معلوم ہو سکتا ہے کہ خلیفہ وقت کیا فرما رہےہیں، وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں، ہم سے کیا توقعات رکھتےہیں وغیرہ؟ جو احمدی بھی ان ارشادات اور ہدایات کو اہتمام کے ساتھ نہیں سنتا وہ کامل طور پر اطاعت کی سعادت سے محروم ہے جو دونوں جہان میں ناقابل تلافی خُسْران مبین پر منتج ہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے اِس مضمون کو ایک پیغام میں یوں بیان فرمایا:

’’یاد رکھیں اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے واضح ارشادات کی روشنی میں خلافت سے تعلق کے نتیجہ میں ہی ایمانی اور عملی ترقی ہو گی۔ چاہے کوئی کتنا ہی بڑا عالم یا مدبر یا بظاہر کسی روحانی مقام پر پہنچا ہوا ہو، اگر خلیفہ وقت سے تعلق کا وہ معیار نہیں جو ہونا چاہیے تو جماعتی ترقی یا کسی کی روحانی ترقی میں اس کے اس مقام کا رتّی برابر اثر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس بات کو اس کی گہرائی میں جا کر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا ممبران شوریٰ (پاکستان) 2014ء کے نام پیغام)

اس چشمہ کی طرف دوڑو

پس اے خلیفہ وقت سے محبت کرنے والو! تمہیں دنیاوی و جسمانی، زمینی و سماوی برکتوں اور فضلوں سے بہرہ مند کرنے کے لیے ہر جمعہ کو اقلیم خلافت کے تاجدار بنفس ِنفیس جلوہ گر ہوکر تمہاری سیرابی کے سامان مہیا فرماتے ہیں۔ اس چشمہ کی طرف دوڑو،اپنی تشنگی بھی بجھاؤ اور دوسروں کو بھی سر سبز ہونے کے گر سکھاؤ۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلیفہ وقت کے ارشادات پر عمل کرتے ہوئے روحانی ترقیات کے یہ زینے طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اگر خطبے نہ آتے تو یہ دن ہم کاٹتے کیسے
جو کیفیت ہے آقا کی اُسے ہم جانتے کیسے
جماعت اور آقا جیسے ہیں یک جان و دو قالب
خدا کا خاص ہے یہ فضل و احساں مانتے کیسے