اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ (المومن:52)
ترجمہ: یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور اُن کی جو ایمان لائے اِس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اِس کا علاج
آسماں اَے غافلو! اب آگ برسانے کو ہے
آج مَیں آپ مخاطبین کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام آگ ہماری غلام، بلکہ غلاموں کی غلام ہے پر روشنی ڈالنے کے لئے کھڑا ہوا/ کھڑی ہوئی ہوں۔
سامعین/ سامعات ! اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل بھجوانے کا سلسلہ ابتدائے آفرینش سے جاری کر رکھا ہے اور ہم حضرت آدم علیہ السلام سے یہ مشاہدہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کی تائید و نصرت فرماتا اور مخالفین کے شر اور مخالفت سے انہیں محفوظ رکھ کر نبی اور اُس کے ماننے والوں کو ترقیات سے نوازتا چلا جاتا ہے ۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نمائندوں کو مخالفین کی لگائی آگ سے حفاظت بھی فرماتا ہے اور اپنی گود میں لے کر اِ ن کی مزید آفتوں اور بلاؤں سے حفاظت کرتا ہے ۔ اس ضمن میں حضرت ابراہیمؑ ، حضرت یوسفؑ ، حضرت ایوبؑ، حضرت صالحؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالیں نمایاں طور پر دی جاسکتی ہیں ۔
سامعین/سامعات! آج مجھے اِن انبیاء میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مخالفین کی طرف سے جلتی آگ میں ڈالنے اور اللہ کی طرف سے آپؑ کو محفوظ رکھنے کے واقعہ کا ذکر کر کے مضمون کو آگے بڑھانا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دو مقامات ( سورۃ الانبیاء آیت 70-69اور سورۃ الصافات آیت 99-98) پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مادی آگ میں پھینکنے اور آپؑ کو اِس چِتَّا سے نکال کر سلامٌ علیٰ ابراہیم کی دُعا سے نوازا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ حضرت ابراہیمؑ کی قوم نے کہا کہ اگر کچھ کرنا ہی ہے تو ابراہیمؑ کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ ہم نے کہا ۔ اے آگ! تو ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا اور قومِ ابراہیمؑ نے اس کے خلاف ایک تدبیر کرنی چاہی مگر ہم نے اس کو ناکام بنا دیا ۔
معلوم ہوتا ہے کہ کسی غیبی سامان یعنی آندھی یا بارش وغیرہ سے آگ بجھا دی گئی تھی ۔ اِسی لیے اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اے آگ! ٹھنڈی ہو جا ۔ یہ نہیں فرماتا کہ اے آگ جلا نہیں ۔ درحقیقت ایمان بالغیب کے قیام کے لیے بھی کسی ایسے ہی طریق کی ضرورت ہوتی ہے جس میں ایک حد تک اخفاء کا بھی پہلو ہو ورنہ ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔‘‘
(تفسیر کبیر ، تفسیر سورۃ الانبیاء آیت 70-69صفحہ 531)
اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سے انبیاء کے ناموں سے مخاطب فرمایا ہے جس میں ابراہیم بھی شامل ہے ۔ آپؑ خود فرماتے ہیں ۔
میں کبھی آدم ، کبھی موسیٰ ، کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
جب آپؑ کو ابراہیم کے نام سے پکارا گیا تو لازم تھا کہ آپؑ بھی اُن حالات سے گزارے جاتے جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نبرد آزما ہوئے تھے ۔ آپؑ کو بھی آگ میں ڈالا جاتا اور آپؑ کا منجانب اللہ ہونا ثابت کرنے کے لیے وہ آگ سرد کر دی جاتی اور آپؑ کو اِ س آگ سے نکال کر ترقیات کے راستہ پر گامزن کیا جاتا ۔ چنانچہ آپؑ کو تسلّی دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے الہاماً خوشخبری دی ۔
”آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔“
(ملفوظات جلد4 صفحہ211۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جس کا نظارہ ہم نے آپؑ کی حیاتِ مبارکہ میں بھی دیکھا اور وفات کے بعد خلفاء کے دَور میں مسلسل دیکھتے آرہے ہیں ۔ اِ س ایمان افروز تاریخ میں داخل ہونے سے قبل حاضرین کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ انبیاء کی آمد پر ایک مخالفت کی آگ بھی ہوتی ہے جو مخالفین اور معاندین کی طرف سے سلگائی جاتی ہے ۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جری اللہ فی حُلل الانبیاء ہونے کے ناطے تمام سابقہ انبیاء کا لبادہ پہنے ہوئے تھے اِ س لئے آپؑ کی مخالفت میں بھی وہ تمام مخالفتیں جمع ہونی تھیں جن کا آپؑ سے پہلے انبیاء کو سامنا کرنا پڑا ۔ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جوں جوں جماعت اکنافِ عالَم میں ترقی کر رہی اور پھیل رہی ہے تُوں تُوں مخالفتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دَور میں دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی علماء کی طرف سےمخالفت اور مخاصمت ہندوستان سے نکل کر اب پاکستان سے ہوتی ہوئی بنگلہ دیش ، انڈونیشیا ، الجزائر ، برکینا فاسو اور بعض عرب ممالک سے راہ داری حاصل کرتے ہوئے اب دیگر کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔ اب تو پاکستان میں جماعت احمدیہ کی تعمیر شدہ مساجد کے مینارے ، گنبد اور محراب مسمار کر کے شہید کیے جا رہے ہیں ۔ جماعت احمدیہ کے مطبوعہ قرآن کریم کو نذرِ آتش کر کے شہید کیا گیا ۔ گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا ، جائدادوں کو مالِ مفت دلِ بے رحم کے طور لُو ٹا گیا ۔ سینکڑوں وجود شہید کر دیے گئے ۔ مطبوعات کی طباعت پر پابندی کا جماعت کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ہر قسم کا جماعتی اخبار و رسالہ بند ہے ۔ لا الہ الا للّٰہ پڑھنے پر پابندی ہے ۔ مسلمانوں کو السلام علیکم کہنا جُرم ہے ۔ اب اِس مخالفت کا سامنا سرکاری سطح پر بھی ہے اور مسجد کے مینارے پولیس کی نگرانی میں بلکہ بعض جگہوں پر پولیس خود گرا رہی ہے ۔ مگر 134سالہ تاریخ جماعت احمدیہ گواہ ہے کہ جس قدر مخالفت پاکستان یا دنیا کے کسی بھی حصہ میں ہوتی ہے اُسی قدر بلکہ اُس سے کہیں زیادہ زور کے ساتھ دنیا بھر میں افرادِ جماعت کی تعداد میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ مساجد کی تعمیرات بھی تیزی سے مکمل ہو رہی ہیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر ایک مسجد پاکستان میں شہید کی جائے تو اس کے مقابل پر 10مساجد تعمیر کرنے کا عزم کریں اور اب تثلیث کدہ صرف جرمنی میں 80 کے قریب مساجد میناروں اور گنبد وں کے ساتھ تعمیر ہو چکی ہیں ۔ ہمارے پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 5ستمبر2023ء کو جرمنی میں مسجدناصر کے افتتاح کے موقع پر شیخوپورہ پاکستان سے ایک دوست کے تعارف کروانے پر فرمایا کہ ’’ وہاں تو مسجدوں کے مینارے گرائے جا رہے ہیں ۔ وہاں وہ گراتے ہیں تو یہاں 10بن جاتے ہیں ۔ آپ یہاں مسجد بنائیں ، مینارے بنائیں ۔‘‘
(رپورٹ مکرم عبدالماجد طاہر ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد یوکے از الفضل انٹرنیشنل 4اکتوبر 2023ء )
سامعین/سامعات! اس بات کا ظہار ہمارے پیارے امام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ با رہا اپنے خطابات میں کر چکے ہیں اور دنیا بھر میں ہماری مساجد کی تعمیر اب ہزاروں میں ہے جہاں روزانہ پنجوقتہ اذان کے ذریعہ اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔ خواہ وہ دنیا کا کنارہ فجی کے جزائر ہوں یا افریقہ کے لَق و دَق صحرا ہوں ہر طرف لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی صدائیں بلند ہورہی ہیں اور دیگر مذاہب والے احمدیوں کو نمائندہ اسلام تصور کر کے اسلام بارے معلومات لینی پسند کرتے ہیں ۔
نہ پہلے اس نے چھوڑا ہے نہ آئندہ وہ چھوڑے گا
ہمیں خود پیار سے وہ دامنِ رحمت میں بھر لے گا
خدا کا گھر کسی بھی نام سے ہو اس کی حرمت ہے
تم اس کا گھر گراتے ہو خدا تم کو گرا دے گا
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا ایک احمدی کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے جس میں عارضی روکیں اور ابتلاء مزید نکھار پیدا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آجکل دنیا کے بعض ممالک میں لگتاہے احمدیوں کو تنگ کرنے کی ایک مہم شروع ہے۔ جس میں براہ راست یا بالواسطہ تنگ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ حسد کی آگ ہے جس نے ان لوگوں، گروپوں یا حکومتوں کو ایسے قدم اٹھانے پر لگایاہوا ہے اور یہ حسد کی آگ بھی مسیح موعود کے زمانے میں اپنوں کی طرف سے بھی غیروں کی طرف سے بھی، مسلمانوں کی طرف سے بھی اور غیر مسلموں کی طرف سے بھی زیادہ بھڑکنی تھی۔ غیر مسلموں کی طرف سے اس لئے کہ مسیح موعود کے زمانے میں اسلام کی ترقی دیکھ کر وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کا غلبہ دنیاپر ہو اور بعض مسلمان لیڈروں اور مُلّاؤں کی طرف سے اس لئے کہ ان کی بادشاہتیں اور ان کے منبر کہیں ان سے چھن نہ جائیں اور اس کو بچانے کے لئے انہیں غیر مسلموں کے سامنے بھی جھکنا پڑا تو انہوں نے اسے عار نہیں سمجھا۔ پھر جو مسلمان ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور رحم کرے کہ یہ لوگ خود ایسی حرکتیں کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والے بن رہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ احمدیت کی مخالفت کرنی ہے، یہ اگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے لڑنے کی کوشش کریں گے توخود فنا ہو جائیں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 8فروری2008ء )
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے
سامعین /سامعات! مخالفت کی اِس آگ کا ذکر صرف اِ س لیے آپ کے سامنے کیا ہے کہ ہمارے ایمانوں میں اضافہ ہو یہ سُن کر کہ یہ آگ تھی جسے اللہ تعالیٰ مسلسل جماعت کی ترقی کے لیے بجھاتا چلا جا رہا ہے تاہم اس الہام کو شان کے ساتھ پورا ہوتا دیکھیں آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سورۃ الانبیاء آیت70کے تحت فُٹ نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں ۔
’’ یہاں آگ سے مراد مخالفت کی آگ بھی ہے اور حقیقی آگ بھی مراد ہو سکتی ہے ۔ چنانچہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ ’’ مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ‘‘ ( اربعین نمبر3، روحانی خزائن جلد17صفحہ429) آگ کے ٹھنڈا پڑ جانے سے مراد یہ ہے کہ اس کی تپش کو ہلاک کرنے کی توفیق نہیں ملے گی بلکہ وہ آگ خودبخود ٹھنڈی ہو جائے گی ۔
(ترجمہ قرآن کریم از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سورۃ الانبیاء فُٹ نوٹ صفحہ552)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ یکم اگست 2014ء میں سورۃ البروج آیات 1تا12کی تلاوت کے بعد فرماتے ہیں ۔
’’ اگر انصاف پسند مسلمان سورۃ البروج پر غور کریں تو احمدیوں پر ہونے والے ظلم اور خاص طور پر ایسے ظلموں کے بارے میں اپنے علماء، اپنے لیڈروں، اپنے سیاستدانوں، اپنی حکومتوں کے رویوں اور احمدیت کی مخالفت میں جو عمل یہ لوگ دکھاتے ہیں اور کرتے ہیں ان کی حقیقت کھل جائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یقین کر لیں اور اس ظلم کا حصہ نہ بنیں جو ظالم لوگ یا ان کے چیلے احمدیوں پر کرتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کا کلام سمجھنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے ایک فرستادے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ اس کی بات تو یہ لوگ بالکل سننا نہیں چاہتے اور اس لئے ظلموں میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں…… ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ بہت ایندھن والی آگیں تمہارے خلاف بھڑکائی جائیں گی۔ ان آگوں میں بار بار ایندھن ڈالا جائے گا۔ یہ آگیں بھڑکانے والے اردگرد بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں گے۔ یہ لوگ جنہوں نے ایسے انتظامات اپنے زعم میں کئے ہوں گے کہ گویا خندقیں کھود کر، ان مومنوں کو محدود کر کے، ہر طرف سے گھیر کر پھر آگیں جلائیں گے۔ لیکن اللہ۔تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فرما دیا کہ بیشک آگ کی تکلیفوں سے تو گزرنا پڑے گا لیکن آخر کار یہ ہر طرف سے گھیر کر مومنوں کو آگ میں جلانے کی کوشش کرنے والے خود ہی ہلاک کر دئیے جائیں گے۔ اپنے زُعم میں تو یہ آگ کے ارد گرد پہرے لگا کر بھی بیٹھے ہوں گے کہ اس آگ سے کوئی بچ کر باہر نہ نکلے۔ اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں پولیس بھی ساتھ کھڑی تماشا دیکھتی رہتی ہے۔ وہ بھی نہیں کوشش کرتی کہ بچائے بلکہ حصہ بن رہی ہوتی ہے۔ اور پھر یہ سب آگ بھڑکانے والے نہ صرف باہر کھڑے ہوتے ہیں بلکہ مومنوں کو جلا کر مزا لیتے ہیں۔ اِذْ ہُمْ عَلَیْہَا قُعُوْدٌ۔ یہ صرف کوئی پرانا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی بھی ہے جو ہمیں بتا رہی ہے کہ مومنین کے مخالفین اس طرح کی آگیں بھڑکائیں گے اور پھر ان آگوں پر پہرے لگا کر بھی بیٹھیں گے۔ یہ ایک اور ثبوت ہے ہمارے سچائی کے راستے پر ہونے کا اور مومن ہونے کا اور ان مخالفین کے ان لوگوں کے زمرہ میں شامل ہونے کا جو مومنین کے خلاف آگیں بھڑکاتے ہیں۔ اور پھر نہ صرف یہ کہ گھیرا ڈال کر بیٹھے ہیں کہ اس آگ سے باہر کوئی نہ نکلے بلکہ خوش ہو رہے ہیں کہ ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ یکم اگست2014ء)
سامعین/ سامعات ! بہر حال آج تقریر کے دوسرے پہلو میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تائیدمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونےوالےایک جلالی نشان کا ذکر کرنا مقصود ہے ۔
بانئ جماعت احمدیہ کی بابرکت سیرت و سوانح کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے اظہار کا ایک ذریعہ بنایا۔ تاریخ احمدیت میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک دفعہ جب ایک ہندو نے اسلام پر یہ اعتراض کیا کہ قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ بات قانون قدرت کے خلاف بیان کی ہے کہ دشمنوں نے ان کو آگ میں ڈالا اور خدا کے حکم سے آگ ان پرٹھنڈی ہوگئی تو حضرت مولانا نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا کہ حقیقی آگ مراد نہیں بلکہ جنگ اور مخالفت کی آگ مراد ہے ۔ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ جواب سنا تو آپ نے بڑےجلال کے ساتھ فرمایا:
‘‘اس تاویل کی ضرورت نہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کا زمانہ تو گزر چکا۔اب ہم خدا کی طرف سے اس زمانہ میں موجود ہیں ہمیں کوئی دشمن آگ میں ڈال کر دیکھ لے کہ خدا ا ُس آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے کہ نہیں۔آج اگر کوئی دشمن ہمیں آگ میں ڈالے گا تو خدا کے فضل سے ہم پر بھی آگ ٹھنڈی ہوگی۔’’
(سیرت المہدی، روایت147)
دنیا کی نظر میں اس ہندو کا اعتراض بظاہر معقول معلوم ہوتا ہے اور قانون قدرت یہی ہے کہ آگ جلاتی ہے۔ لیکن یہ جری اللہ فی حلل الانبیاء ، اللہ تعالیٰ کا یہ پہلوان جو تمام انبیاء کا لبادہ اوڑھے ہوئے اور ان کی متفرق خصوصیات اپنے وجود میں جمع کیے ہوئے اس زمانہ میں مبعوث ہوا تاکہ زندہ نشانوں کے ذریعہ اسلام کو تمام مذاہب پر غالب کر دکھائے کس شان سے فرماتے ہیں کہ دنیا کی نظر میں قانون قدرت یہی ہوگا کہ آگ جلاتی ہے لیکن جس قادر مطلق ہستی نے مجھے کھڑا کیا ہے وہ قانون قدرت کا بھی مالک ہے اور آج بھی اگر اسلام پر کوئی اعتراض کرتا ہے تو مجھے خدا کی نصرت پر ایسا یقین ہے کہ وہ ضرور آج بھی میرے ہاتھ پر گذشتہ زمانے کے معجزات ظاہر کرےگا جو بظاہر دنیا کی نظر میں بالکل ناممکن اور قانونِ قدرت کے خلاف ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو حضرت اقدس علیہ السلام کو الہاماً یہ بھی فرمایا کہ تو لوگوں سے کہہ دے۔
‘‘آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔’’
(البدر، جلد 1، نمبر 5، 6، مورخہ 28؍نومبر + 5؍دسمبر 1902ء، صفحہ 34)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں:
’’ مدّت کا یہ میرا الہام ہے کہ ’’آگ سے ہمیں مت ڈرا۔ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘ یہ ویسے ہی ہے جیسے حدیث شریف میں ہے کہ بعض بہشتی بطور سیر دوزخ کو دیکھنا چاہیں گے اور اس میں اپنا قدم رکھیں گے،تو دوزخ کہے گی کہ تونے تومجھے سَرد کر دیا۔ یعنی بجائے اس کے کہ دوزخ کی آگ اُسے جلاتی۔ خادموں کی طرح آرامدہ ہو جاوے گی۔
عادت ﷲ یہی ہے کہ دوناریں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔محبّتِ الہٰی بھی ایک نار ہے اور طاعون کو بھی نارلکھا ہے۔لیکن ان میں سے ایک تو عذاب ہے اور دوسری انعام ہے، اسی لیے طاعون کی نار کی ایک خاص خصوصیت خدا تعالیٰ نے رکھی ہے۔ اس میں آگ کو جو غلام کہا گیا ہے۔ میرا مذہب اس کے متعلق یہ ہے کہ اسما ء اوراعلام کو ان کے اشتقاق سے لینا چاہئے۔ غلام غلمہ سے نکلا ہے۔ جس کے معنے ہیں کسی شیٔ کی خواہش کے واسطے نہایت درجہ مضطرب ہونا یا ایسی خواہش جو کہ حدسے تجاوز کر جاتی ہے اور انسان پھر اس سے بے قرار ہو جاتا ہے۔ اور اسی لیے غلام کا لفظ اس وقت صادق آتا ہے جب انسان کے اندر نکاح کی خواہش جوش مارتی ہے۔ پس طاعون کا غلام اور غلاموں کی غلام کے بھی یہی معنے ہیں کہ جو شخص ہم سے ایک ایسا تعلق اور جوڑ پیدا کرتا ہے جو کہ صدق و وفا کے تعلقات کے ساتھ حد سے تجاوز ہوا ہو اور کسی قسم کی جدائی اور دُوئی اس کے رگ و ریشہ میں نہ پائی جاتی ہو اسے وہ ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی اور جو ہمارا مرید الہٰی محبت کی آگ سے جلتا ہو گا اور خدا کو حقیقی طور پر پا لینے کی خواہش کمال درجہ پر اس کے سینہ میں شعلہ زن ہو گی۔ اسی پر بیعت کا لفظ حقیقی طور پر صادق آوے گا۔ یہاں تک کہ کسی قسم کے ابتلا کے نیچے آکر وہ ہر گز متزلزل نہ ہو بلکہ اور قدم آگے بڑھاوے۔ لیکن جبکہ لوگ ابھی تک اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر وہ ابتلا میں آجاتے ہیں اور اعتراض کر نے لگتے ہیں تو پھر وہ اس آگ سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں۔‘‘
)ملفوظات جلدچہارم صفحہ (211
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی مختلف تحریرات میں اِس آگ سے مراد طاعون بھی لی ہے کیونکہ طاعون بیماری بھی آگ کی طرح گرم اور انسان کو اتنی گرمائش پہنچاتی ہے جس کی برداشت انسان کی طاقت سے باہر ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر اِس الہام کا ذکر کر کے فرمایا کہ “ حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کا بندہ ہو گا اُسے طاعون نہ ہو گی اور جو شخص ضرر اُٹھا ئے گا اپنے نفس سے اُٹھائے گا”
)ملفوظات جلد 4 صفحہ (211
سامعین/ سامعات! آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام کے نظارے ہم نے حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد بھی دیکھے اِن میں سے ایک واقعہ کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے یوں بیان فرمایا ہے۔
’’مولوی رحمت علی صاحب انڈونیشیا میں جس محلہ میں رہائش پذیر تھے وہ سارے کا سارا لکڑی کے مکانوں کا بنا ہوا تھا ۔ ایک دفعہ وہاں ایسی خوفناک آگ لگی جو پھیلتے پھیلتے ہوا کے رخ کے مطابق مولوی صاحب کے گھر کی طرف چل پڑی ۔ جماعت کے پریشان حال ممبران وہاں پہنچے اور ان کی منتیں کیں کہ مولوی صاحب ! آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں ۔ کم از کم سامان ہی نکال لیں ۔ بعد میں انسان تو جلدی سے بھاگ کر بھی باہر جا سکتا ہے ۔ یہ بہت خطرناک آگ ہے جو کسی چیز کو نہیں چھوڑے گی ۔ پھر ہوا کا رخ ایسا ہے کہ لازماً اس نے آپ کے گھر تک پہنچنا ہی پہنچنا ہے ۔ مولوی صاحب نے کہا اس جگہ کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مَیں تو اُس آقا کا غلام ہوں جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا کہا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے ۔ (تذکرہ صفحہ324) اس لیے یہ آگ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتی ۔ یہ بھی ایک بہت بڑا دعویٰ تھا،لیکن ایک بہت بڑے مومن کی زبان کا دعویٰ تھا ۔ ایک ایسے مومن کی زبان کا دعویٰ تھا جن کے متعلق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوشخبری ہے رُبَّ اَشعَثَ اَغبَرَ…..لَو اَقسَمَ لَاَ بَرَّہْ(مستدرک حاکم جلد4صفحہ364) کہ خبردار! ایسے درویش بندے بھی ہیں جو پراگندہ حال اور خاک آلودہ ہوتے ہیں ، لیکن اگر وہ خدا پر قسم کھائیں تو خدا ضرور ان کی قسم کوپورا کرتا ہے ۔ انڈونیشیا کی تاریخ کا یہ ایک درخشندہ واقعہ ہے کہ وہ آگ بڑھتی رہی اور اس نے سارے مکان جلا دیے لیکن جب اس کے شعلے مولوی صاحب کے مکان کو چھونے لگے تو اچانک اتنی موسلا دھار بارش آئی کہ دیکھتے دیکھتے وہ شعلے بھسم ہو گئے اور آگ مکان کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا سکی ۔ وہ آگ جو دوسری چیزوں کو بھسم کرتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے نتیجے میں خود بھسم ہوگئی ۔ ‘‘
( خطبہ جمعہ فرمودہ 11فروری1983ء بحوالہ خطبات طاہر جلد2صفحہ81-79)
اِس طرح کے دسیوں واقعات ہماری تاریخ نے محفوظ کر رکھے ہیں ابھی ہماری آنکھوں نے اِس الہام کو چند سال قبل ہی مسجد بیتُ الفتوح کے ایک حصہ میں آگ لگنے اور عمارت کے جل کر راکھ ہوجانے پر دشمن کے شادیانےبجاتے دیکھے اور پھر اللہ تعالی کے فضل سے اس سے کہیں کشادہ، کہیں بہتر، کہیں زیادہ خوبصورت عمارت تیار ہوکر مکمل ہوگئی اور اس کی پیشانی پر ماشاء اللہ اور سبحان اللہ کے الفاظ اس کی شان و شوکت کو بڑھانے لگے اور دشمن کو ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑی۔
آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ کے ساتھ اپنی تقریر کو ختم کرتا/ کرتی ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
”صادق تو ابتلاؤں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا ہی حامی ہوگا اور یہ عاجز اگرچہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خداتعالیٰ کا شکر کرتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگرچہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں ۔ تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں ۔ تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا ۔ مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا ۔ دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں۔
اے نادانو اور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا ۔ کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ مَیں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا ۔ مَیں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ مَیں اُس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اُس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اِس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اُس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اُس کا جلال چمکے اور اُس کا بول بالا ہو۔ کسی ابتلا سے اُس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہوں ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے۔“
(انوار الاسلام،روحانی خزائن جلد9صفحہ 23)
پھر حضورؑ اِس ضمن میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”پس راتوں کو اُٹھ کر روؤ۔ دعائیں مانگو اور اس طرح سے اپنے اردگرد ایک دیوارِ رحمت بنالو۔ خدا تعالیٰ رحیم کریم ہے وہ اپنے خاص بندہ کو ذلت کی موت کبھی نہیں مارتا (اگر خدانخواستہ ہماری جماعت میں سے کسی کو ذلت کی موت آئی تو لوگ اعتراض کریں گے کیونکہ اگر ہم اشتہار نہ دیتے تو کسی کو اعتراض کا موقعہ نہ ملتا مگر اب ہم نے خود مشتہر کیا ہے اس لئے لوگ ضرور اعتراض کریں گے)۔ پس تم کو چاہیے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔ مجھے امید ہے کہ جو پورے درد والا ہوگا اور جس کا دل شرارت سے دُور نکل گیا ہے خدا اُسے ضرور بچائے گا۔ توبہ کرو۔ توبہ کرو۔ ایک مرتبہ مجھے الہام ہوا تھا۔
”آگ سے ہمیں مت ڈراؤ۔ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے“
حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کا بندہ ہوگا اسے طاعون نہیں ہوگی اور جو شخص ضرر اُٹھائے گا۔ اپنے نفس سے اٹھائے گا۔ اگر تم خدا سے صفائی نہیں کرتے تو کوئی طبیب تمہارا علاج نہیں کرسکتا اور نہ کوئی دوا فائدہ بخش سکتی ہے۔ یہ ذمہ داری صرف خدا کا فعل ہے۔ دل کا پاک و صاف کرنا بھی ایک موت ہوتی ہے۔ جبتک انسان محسوس نہ کرے کہ میں اب وہ نہیں ہوں جو پہلے تھا تب تک اسے سمجھنا چاہیے کہ میں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ “
(ملفوطات جلد 4 صفحہ 211-112،ایڈیشن 1984ء )
قدغنیں جتنی بھی لگا لو تم
ہم تو بڑھتے رہیں نہ کم ہوں گے
اتنے انعام بھی ملیں گے ہمیں
جتنے ہم پر ترے ستم ہوں گے